سوال

کیا بچوں کو کھلونوں میں گڑیا  وغیرہ جاندار چیزوں کے کھلونے  لے کر دیے جاسکتے ہیں؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

یہ چیزیں بچوں کے لیے بطور کھلونا اور انہیں بہلانے کے لیے استعمال کی جاسکتی ہیں، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے متعلق بھی ثابت ہے کہ ان کے پاس ایسے کھلونے موجود تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے:

“قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ أَوْ خَيْبَرَ، وَفِي سَهْوَتِهَا سِتْرٌ، فَهَبَّتْ رِيحٌ فَكَشَفَتْ نَاحِيَةَ السِّتْرِ عَنْ بَنَاتٍ لِعَائِشَةَ- لُعَبٍ-، فَقَالَ: مَا هَذَا يَا عَائِشَةُ؟ قَالَتْ: بَنَاتِي! وَرَأَى بَيْنَهُنَّ فَرَسًا لَهُ جَنَاحَانِ مِنْ رِقَاعٍ، فَقَالَ:مَا هَذَا الَّذِي أَرَى وَسْطَهُنَّ؟ قَالَتْ: فَرَسٌ! قَالَ:وَمَا هَذَا الَّذِي عَلَيْهِ؟، قَالَتْ: جَنَاحَانِ، قَالَ:فَرَسٌ لَهُ جَنَاحَانِ؟، قَالَتْ: أَمَا سَمِعْتَ أَنَّ لِسُلَيْمَانَ خَيْلًا لَهَا أَجْنِحَةٌ؟! قَالَتْ: فَضَحِكَ، حَتَّى رَأَيْتُ نَوَاجِذَهُ”. [سنن أبي داود:4932]

’رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک یا خیبر سے واپس تشریف لائے تو میرے طاقچے کے آگے پردہ پڑا ہوا تھا۔ ہوا چلی تو اس نے پردے کی ایک جانب اٹھا دی،  تو  سامنے میرے کھلونے اور گڑیاں نظر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا: ”عائشہ یہ کیا ہے؟“ میں نے عرض کیا: یہ میری گڑیائیں ہیں۔ آپ نے ان میں کپڑے کا ایک گھوڑا بھی دیکھا جس کے دو پر تھے۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ”میں ان کے درمیان یہ کیا دیکھ رہا ہوں؟“ میں نے کہا: یہ گھوڑا ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ”اور اس کے اوپر کیا ہے؟“ میں نے کہا: اس کے دو پر ہیں۔ آپ ﷺ نے کہا: ”کیا گھوڑے کے بھی پر ہوتے ہیں؟“ عائشہ  رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ نے سنا نہیں کہ سیدنا سلیمان  علیہ السلام کے گھوڑے کے پر تھے؟ فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ  یہ سن کر اس قدر ہنسے کہ میں نے آپ ﷺ کی ڈاڑھیں دیکھیں‘۔

اس روایت سے ثابت ہوا کہ اس قسم کے کھلونے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس موجود تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے علم ہونے کے باوجود ان کا انکار نہیں کیا، جو کہ ان کے جائز ہونے کی دلیل ہے۔

اسی طرح ایک صحابیہ بیان فرماتی ہیں:

“نُصَوِّمُ صِبْيَانَنَا الصِّغَارَ مِنْهُمْ، وَنَذْهَبُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَنَجْعَلُ لَهُمُ اللُّعْبَةَ مِنَ الْعِهْنِ، فَإِذَا بَكَى أَحَدُهُمْ عَلَى الطَّعَامِ أَعْطَيْنَاهَا إِيَّاهُ عِنْدَ الإِفْطَارِ”. [صحيح البخاري:1960 و صحيح مسلم:1136]

’ ہم اپنے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے اور انہیں مسجد لے جاتے اور ان کے لیے اُون کا کھلونا (گڑیا) بنا لیتے، جب ان میں سے کوئی افطار کے قریب، کھانے کے لیے روتا تو ہم (اسکا دل بہلانے کے لیے) وہ کھلونا اسے دے دیتے‘۔

البتہ بعض لوگ ایسی چیزوں کو خوبصورتی، سجاوٹ اور بطور ڈیکوریشن پیس، گھروں اور گاڑیوں وغیرہ میں لٹکاتے ہیں، یہ بالکل درست نہیں، کیونکہ گنجائش اور جواز کا تعلق صرف بچوں کی کھیل کود کے ساتھ ہے۔ ویسے بھی سجا کر رکھنے میں ان کی تعظیم کا بھی ایک پہلو ہے، جو کہ حرام ہے، جبکہ کھیل کود میں ایسی کوئی صورت نہیں ہوتی۔

اسی طرح کتے، بلے، خنزیر  اور بھالو جیسےکھلونوں سے بھی اجتناب کیاجائے، تاکہ بچوں کو نجس چیزوں سے مانوسیت پیدا نہ ہو۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ