سوال
ایک عورت نے برضا و رغبت بغیر کسی پریشر کے اپنے باپ کی ملکیت سے حصہ چھوڑ دیا تھا۔ اب اسکی اولاد جوان ہوگئی ہے اور وہ اسے کہ رہی ہے کہ ماموں سے اپنا حصہ لو۔ انکے مجبور کرنے پر وہ اپنا حصہ واپس مانگ رہی ہے، تو کیا اسکا اس وقت مطالبہ صحیح ہے ؟ اور کیا ادائیگی اس وقت کے حساب سے ہوگی یا اب کے ؟ عورت اس بات کا خود اقرار بھی کرتی ہے۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
یہ کوئی المیہ آج کا نہیں ہے کہ بہنوں اور بیٹیوں کا حصہ دیا ہی نہیں جاتا، یا پریشر ڈال کر معاف کروا لیا جاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں بھی اس طرح کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کو لے کر آئی اور اس نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول! یہ سعد بن الربيع کی بیٹیاں ہیں، جو آپ کی معیت میں تھے اور احد میں شہید ہوئے۔ ان کے چچا نے ان کا سارا مال لے لیا ہے اور ان کے لیے کچھ نہیں چھوڑا ۔ اے اﷲ کے رسول! آپ کیا فرماتے ہیں؟ اﷲ کی قسم! اس طرح تو ان کا کبھی نکاح نہیں ہو گا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اﷲ اس میں فیصلہ فرما دے گا۔ اور پھر سورۃ النساء کی آیت: {يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ…} نازل ہوئی۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عورت کو اور اس کے دیور کو میرے پاس بلاؤ۔“ اور فرمایا: ”ان دونوں لڑکیوں کی دو تہائی اور ان کی ماں کو آٹھواں حصہ دے دو اور باقی تمہارا ہے“۔ [سنن ابي داود:2891، 2892]
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ برصغیر کی معاشرت ہندوؤں کےرہن سہن سے بنی ہے۔کیونکہ ہندو لوگ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو وراثت سے محروم رکھتے ہیں،تو ان کی اندھی تقلید میں ہم نے بھی ایسا ہی کرنا شروع کر دیا۔ حالانکہ ارشادِ باری تعالی ہے:
“لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا”. [النساء:7]
’مردوں کے لئے اس مال میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے بھی ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ اللہ کا مقرر کردہ حصہ ہے‘۔
اس فرمان کے تحت ان کو حصہ دیں تو سہی پھر کچھ عرصے کے بعد پتہ چلے گا کہ کون اپنے بھائی کو واپس کرتی ہے؟ وہ بیچاری اس وجہ سے مجبور ہوکر معاف کرتی ہیں کہ انہیں پتہ ہے حصہ لینے کے بعد کس قدر مسائل مشکلات اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑے گا کہ بھائی ساری زندگی بولیں گے نہیں، گھر پر نہیں آئیں گے، بات چیت اورتعلق ختم کر دیں گے، لڑائی جھگڑے کرتے رہیں گے ۔
لہذا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وراثت تقسیم کی جائے ، اور انہیں ان کے حصے کا مالک بنا دیا جائے، پھر اگر وہ راضی خوشی اور طیبِ نفس سے دینا چاہییں، تو بھائی لے لیں، تو ان پر کوئی قدغن نہ ہوگی۔
ہمارا ہاں یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ وراثت ہمیشہ بہنوں نے ہی بھائیوں کو معاف کرنا ہوتی ہیں، بہنوں سے قربانی کیوں دلوائی جاتی ہے، بھائیوں کو بھی ایثار کرتے ہوئے اپنا حصہ بہنوں کو دے دینا چاہیے..!
صورتِ مسؤلہ میں اگر واقعتا بہن نے اپنا حصہ بھائیوں کو ہبہ کردیا تھا، تو اس کی اولاد کا اسے حصہ لینے پر مجبور کرنا درست نہیں ہے۔ لیکن اگر بھائیوں نے حصہ دیا ہی نہیں، تو وہ خاتون اپنے حصے کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ حصہ اُس وقت کے حساب سے دینا ہے یا آج کے مطابق، تو اس کے لیے جائیداد اور وراثت کی نوعیت سامنے رکھتے ہوئے آپس میں افہام و تفہیم کے ذریعے کوئی فیصلہ کیا جائے ۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ