سوال
میرے والد صاحب کا انتقال ہو چکا ہے جبکہ میری والدہ ضعیف ہیں،اور بیمار بھی رہتی ہیں۔ میں اپنے والدین کا سب سے بڑا بیٹا ہوں اور الگ گھر میں رہتا ہوں، اپنی استطاعت کے مطابق تھوڑا بہت تعاون بھی کر دیتا ہوں۔ لیکن میری والدہ یہ چاہتی ہیں کہ میں ان کے ساتھ والد صاحب کے گھر میں رہوں ،اور گھر میں اتنی جگہ بھی ہے، یا پھر وہ چاہتی ہیں کہ میں اپنا فارغ وقت ان کے پاس گزاروں ،اوردلجوئی کروں، ان سے باتیں کروں ،میری بیوی ان کی خدمت کرے۔
میں والد صاحب کے گھر میں اس لیے نہیں رہتا ،کیوں کہ میری بیگم کو میرے گھر کا ماحول پسند نہیں ہے، اور ایک ہی گھر میں دیوروں سے پردہ کرنا مشکل ہوتا ہے، جبکہ میری چھوٹی بھابھی اسی گھر میں رہتے ہوئے، پردہ بھی کرتی ہیں۔اپنی والدہ کی دوسری خواہش اس لیے پوری نہیں کر پاتا ،چونکہ میرا الگ گھر ہے بیوی بچے ہیں، ان کو بھی وقت دینا ہوتا ہے ،اس لیے مہینہ میں پندرہ دن میں،ہفتہ میں،خوشی یا غمی کے موقع پہ چکر لگا لیتا ہوں تھوڑی دیر کے لئے،یا کوئی پرابلم ہو جائے تو اسکو حل کروانے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔
لیکن میری والدہ مجھ سے خوش نہیں ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ میں ان کو بھرپور وقت دوں ،ان کی خدمت کروں دلجوئی کروں،جبکہ میرے دیگر بہن بھائی میری والدہ کی خدمت کرتے ہیں، لیکن میری والدہ کہتی ہیں کہ میں اپنے حصہ کی خدمت کا حق ادا کروں،میرے وقت نہ دینے اور خدمت نہ کرنے کی وجہ سے میری والدہ دن بدن اس غم میں مزید کمزور ہوتی جارہی ہیں۔شریعت کی روشنی میں رہنمائی مطلوب ہے۔
یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ بہو پر ساس،سسر کی خدمت کرنا واجب نہیں ہے جبکہ شوہر کے والدین کو بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے گھر کی چپاتی اور سالن چاہیے ہوتا ہے، یا وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی بہو ان کی دلجوئی کرے ،ان کے ساتھ وقت گزارے، لیکن بہو یہ کہتی ہے کہ مجھ پر آپ کی خدمت واجب نہیں ،یہ آپ کی اولاد کی ذمہ داری ہے۔ جبکہ بیٹے معاشی مصروفیات کی وجہ سے ،اور بیٹیاں اپنے اپنے گھروں کی ذمہ داری کی وجہ سے خدمت کا حق ادا نہیں کر پاتے، اور بہو اس لیے نہیں کرتی چونکہ یہ اس کی ذمہ داری نہیں ،ایسے میں شریعت کی تفصیلی رہنمائی مطلوب ہے۔جزاکم اللہ خیرا
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
یہ شروع سے ایک نظام چلا آرہا ہے،کہ بیٹی کی جب شادی ہوتی ہے وہ سسرال چلی جاتی ہے۔ اور بیٹے بھی شادی کر کے الگ ہو جاتے ہیں۔ بیٹے اس لیے الگ ہوتے ہیں کیونکہ اب انہوں نے اپنا گھر چلانا ہوتا ہے، کیونکہ اکٹھے رہتے ہوئے، بعض دفعہ کئی ایک مسائل جنم لیتے ہیں۔
جہاں تک خدمت کا معاملہ ہے وہ الگ رہ کر بھی ہو سکتی ہے۔والدہ کو چاہیے کہ وہ وسعت ظرفی سے کام لے۔24 گھنٹے بیٹا اس کے پاس بیٹھا رہے اس کی خدمت اور دلجوئی کرے اور بہو بھی اس کے ساتھ بیٹھی رہے یہ ناممکن ہوتا ہے۔کیونکہ ان دونوں نے گھر داری کے حقوق بھی ادا کرنے ہوتے ہیں ۔
ہاں بیٹا والدین کے حقوق ادا کرے ان کی خدمت بھی کرے، اور بہو بھی کبھی کبھی جا کر ان کی خدمت کرے اور خیریت دریافت کرے ۔
یہ بات غلط ہے کہ بہو کے ذمہ ساس سسر کی خدمت نہیں ہے۔یہ سوچ مغرب سے اور آج کے جو نام نہاد پڑھے لکھے لوگ ہیں، ان سے آئی ہے ، جو کہ بالکل ہی غلط ہے۔ بلکہ اب تو خواتین اس سے بھی آگے بڑھ رہی ہیں، اور کہتی ہیں کہ خاوند کی خدمت بھی ہمارے ذمے نہیں ہے، اسے گھر کے کام کاج کے لیے الگ سے بندوبست کرنا چاہیے!
لہذا والدہ کا بیٹے کو مجبور کرنا کہ وہ ہر وقت ان کے پاس بیٹھا رہے، یہ بھی درست رویہ نہیں، جبکہ بہو کا ساس سسر کو نظر انداز کرنا بھی درست نہیں۔ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک ضروری ہے، بیٹے کو اس کا خیال رکھنا چاہیے، اور بیٹے کی بیوی کو بھی اس حسنِ سلوک اور صلہ رحمی میں خاوند کا ساتھ دینا چاہیے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف سندھو حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ