سوال
مجھے ایک آدمی کاروباری حوالے سے کہہ رہا ہے کہ پچاس لاکھ روپے مجھے دے دو ،میں یہ رقم موبائل کاروبار میں لگاؤں گا.اور بچت کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوگی۔مگر بچت کا ستر فیصد٪70 آپ کا ہوگا.اور تیس فیصد٪30میرا ہوگا۔
اگر آپ کی رقم کاروباری نقصان میں ختم ہوجائے تو میں آپ کی ساری رقم واپس کرنے کا ذمہ دار ہونگا۔بچت آپ کی اور اگر نقصان ہوا تو میرا ہوگا۔یہ بتا دیں کہ یہ کاروبار جائز ہے یا سود کی مد میں آتا ہے کاروبار کروں یا نہ کروں؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
کاروبار کی یہ شکل مضاربت کہلاتی ہے۔مضاربت میں ایک آدمی کا سرمایہ ہوتا ہے اور دوسرے آدمی کی محنت ہوتی ہے۔بعض اوقات دوسرے آدمی کابھی سرمایہ ہوتا ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے ۔کاروبار کے اخراجات نکال کر جو پرافٹ ہو اس کی شرح طے کی جاتی ہےکہ جو محنت کرنے والا ہے، اس کو کتنا ملے گا، اور جس کی رقم ہے اسکو کتنا ملے گا ۔
بعض اوقات 50 فیصد ہوتا ہے۔یا 60 فیصد ہوتا ہے اور بعض اوقات 45/55 کی نسبت سے بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔لیکن اس میں نفع اور نقصان میں دونوں شریک ہوتے ہیں۔نقصان کی صورت میں محنت کرنے والے کی محنت ضائع ہوتی ہے اور رقم والے کی رقم۔
لیکن صورت مسئولہ میں جو ذکر کیا گیا ہے، کہ پیسہ دینے والے کو 70 فیصد دیا جائے گا، اور جو محنت کرنے والا ہے وہ 30 فیصد لے گا۔ اس حد تک تو تسلیم کیا جا سکتا ہے۔لیکن محنت کرنے والا جو کہہ رہا ہے، کہ نقصان کی تلافی صرف میرے ذمہ ہے۔یعنی اگر رقم کاروبار میں ڈوب گئی تو محنت کرنے والا ساری رقم دینے کا مجاز ہوگا۔یہ بالکل ہی غلط ہے۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ نفع کی صورت میں بھی آپ دونوں شریک ہونگے، اور نقصان کی صورت میں بھی دونوں ذمہ دار ہونگے ۔ کیونکہ کاروبار میں نفع اور نقصان دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔اگر آپ نقصان کا ذمہ دار نہیں بننا چاہتے، تو وہ رقم بطور قرض دیں، البتہ پھرآپ نفع نہیں لے سکتے، کیونکہ قرض دے کر نفع لینا صریح سود ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف سندھو حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ