سوال

ایک آدمی بیرون ملک سعودیہ میں کاروبار کرتا ہے ، بڑے بیٹے کی پڑھائی ادھوری چھڑوا کر وہ اس کو اپنے ساتھ کاروبار میں شامل کرتا ہے کیونکہ اس کی اپنی طبیعت صحیح نہیں رہتی تھی جس کی وجہ سے کاروبار متاثر ہو رہا تھا۔ جبکہ اس کے باقی بچے پڑھائی کرتے رہے اور ڈاکٹر انجینئر بنے، لیکن یہ بڑا بیٹا صرف کاروبار میں ہی مصروف رہا۔ باپ نے کچھ عرصہ کاروبار کے لیے وقت دیا، لیکن پھر بڑے بیٹے نے ہی مسلسل 30 سال تک کاروبار ہینڈل کیا اور اس میں سے ایک پائی بھی اپنے لیے الگ سے نہیں لی۔

اسی دوران سب بچوں کی شادیاں ہوئیں اور گھر وغیرہ بنایا گیا۔ باپ فیملی سمیت پاکستان سیٹ ہو گیا، خرچہ ادھر سے ہی ہوتا تھا۔جبکہ کاروبار کرنے والا بیٹا اپنی فیملی کے ساتھ ادھر سعودیہ میں ہی رہا لیکن اس نے اپنے لیے الگ سے ایک پائی بھی نہیں بنائی۔

اب سعودیہ کے حالات ناساز ہونے کی وجہ سے بیٹے  نے اپنی فیملی پاکستان بھیجی ہے۔ اب بیٹا یہ کہتا ہے کہ میں نے جو 30 سال آپ کا کاروبار چلایا ہے اور الگ سے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے کچھ نہیں لیا، تو مجھے اس کا کچھ انعام دینا چاہیے کیونکہ میری اولاد جوان ہے ان کے اخراجات اور دیگر ضروریات ہیں، جس کے لیے مجھے پیسوں کی ضرورت ہے۔  تو کیا بیٹے کا یہ مطالبہ درست ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

سوال میں پیش کردہ تفصیل کے مطابق یہ بات سمجھ آتی ہے کہ بیٹے نے والد کے ساتھ اس کے کاروبار میں ہاتھ بٹایا اور تیس سال یہ خدمت سرانجام دی اور اب بیٹا اس پر انعام کا طلب گار ہے!

  • سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ والد کے ساتھ بالخصوص اس کی بیماری کے ایام میں بیٹا تعاون نہیں کرے گا تو اور کون کرے گا؟ بیٹے نے اچھا کیا ہے کہ اپنے والد کا سہارا بنا ہے، جس وجہ سے ان کا کاروبار جاری اور مستحکم رہا، اس میں والدین اور اولاد سب کی ہی فائدہ ہوا، اگر بیٹا والد کے ساتھ کاروبار نہ کرتا، تو اس بیٹے سمیت سب کا ہی نقصان ہوتا۔ کیونکہ والد کا کاروبار اگر ختم ہوجاتا، تو اس بیٹے کو کون چلتا چلاتا کاروبار دیتا؟
  • دوسری بات: بیٹے کا اگر تو والد سے الگ کوئی کاروبار ہو، تو وہ اپنی انفرادی حیثیت میں جو مرضی بناتا رہے، لیکن اگر مشترکہ کھاتا ہے تو پھر بیٹا اس میں خاص اپنے لیے کچھ نہیں بنا سکتا، جیسا کہ سوال میں بتایا گیا کہ بیٹے نے اپنے لیے ایک پائی بھی نہیں لی، تو یہ اچھا کیا ہے، امانت و دیانت کا یہی تقاضا تھا، اگر والد کی اجازت کے بغیر مشترکہ کھاتے سے اپنے لیے الگ سے جائیداد بنائی جاتی تو یہ خیانت تصور ہوتی ۔
  • تیسری بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اولاد کی اپنی خاص جائیداد میں بھی باپ کو حق ہے کہ وہ بیٹے کا مال لے سکتا ہے۔ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور شکایت کی کہ اس کا باپ اس کا مال ہڑپ کرجاتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«أَنْتَ وَمَالُكَ لِوَالِدِكَ، إِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ أَطْيَبِ كَسْبِكُمْ، فَكُلُوا مِنْ كَسْبِ أَوْلَادِكُمْ» (سنن أبی داود:3530)

’تو اور تیرا مال تیرے والد کا ہے، بے شک تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے، لہذا تم اپنی اولاد کی کمائی سے کھا لیا کرو‘۔

لہذا بیٹے نے جو کیا ہے، یہ اس نے بہت اچھا کیا ہے، اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا یہی تقاضا تھا۔ اس فرض کی ادائیگی پر بیٹا اپنے لیے الگ سے کوئی مطالبہ نہیں کرسکتا، کہ مجھے اس پر انعام دیا جائے۔

ہاں البتہ والد یا والدہ یا بہن بھائی مل جل کر اپنے طور پر اس بیٹے/بھائی کے تعاون اور حسنِ سلوک کے بدلے کے طور پر اسے انعام دینا چاہیں، تو یہ بڑی اچھی بات ہے، لیکن یہ بیٹا بذات خود کوئی مطالبہ نہیں کرسکتا۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ