سوال

اگر کوئی لڑکی شادی کے ڈیڑھ ماہ بعد (جبکہ حمل ٹھہر چکا ہے) ، شوہر کی اجازت کے  بغیر اپنے والدین اور بہن و بہنوئی کو شوہر کے گھر میں داخل کر کے، شوہر کا دیا ہوا تمام تر سامان لے کر اپنے میکے والوں کے ساتھ ،اپنے میکے چلی جاتی ہے اور شوہر کے گھر والوں کے بلانے پر بھی واپس نہیں آتی ہے، تو اس صورت میں کیا وہ عورت میکے میں رہتے ہوئے شوہر سے نان و نفقہ مانگنے کا حق رکھتی ہے ؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

{وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ} [البقرة: 228]

جس طرح عورتوں کے فرائض ہیں، اسی طرح ان کے ذمہ حقوق کی ادائیگی بھی ہے، اور مردوں کو حقوق و فرائض ہر دو اعتبار سے ان پر فوقیت حاصل ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا:

{الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ} [النساء: 34]

مرد عورتوں پر نگران و حاکم ہیں، کیونکہ اللہ تعالی  نے انسانوں کو ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس وجہ سے بھی کہ مردوں کے ذمے ہے کہ وہ اپنے اموال خرچ کرتے ہیں۔
گویا نکاح کے بعد میاں بیوی دونوں کے ایک دوسرے سے متعلق حقوق و فرائض ہوتے ہیں، جنہیں دونوں کے لیے ادا کرنا ضروری ہے۔ لہذا  بیوی کے تمام اخراجات ( مثلا: کھانا، پینا، پہننا، رہائش، علاج معالجہ وغیرہ) خاوند کے ذمہ ہوتے ہیں۔ جبکہ بیوی کی ذمہ داری ہے کہ  وہ اپنے شوہر کی اطاعت کرے، اس کی مرضی کے بغیر کسی کو گھر میں نہ لائے، اس کا جنسی حق ادا کرے، بچوں کی اچھی تربیت اور مال و اسباب کی حفاظت کرے،  وغیرہ۔
بیوی کا خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا  جائز نہیں۔ اور اگر بیوی ایسا کرتی ہے، تو  وہ نافرمان سمجھی جائے گی، اور خاوند پر اس کا نان و نفقہ ضروری نہیں ہوگا، حتی کہ وہ واپس لوٹ آئے۔ [ المغني لابن قدامة:8/187، الشرح الممتع لابن عثيمين:13/470]
کیونکہ  اگر وہ  بحیثیت بیوی، خاوند کے حقوق ادا نہیں کرتی، تو پھر  اس بیوی کے حقوق  بھی خاوند کے ذمہ ضروری نہیں ہیں۔   ہاں البتہ اگر وہ حاملہ ہو، تو پھر اس حمل کی وجہ سے خاوند پر ضروری ہے کہ وہ    اس بچے اور اس کی والدہ کے اخراجات کا ذمہ اٹھائے۔  اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

{وَإِنْ كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُمْ بِمَعْرُوفٍ} [الطلاق: 6]

’اگر عورتیں حاملہ ہوں تو ان پر اُس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک ان کا وضع حمل نہ ہو جائے، پھر اگر وہ تمہارے لیے بچے کو دودھ پلائیں تو ان کی اجرت انہیں دو، اور معاملات کو مناسب طریقے سے باہمی گفت و شنید سے طے کر لو ‘۔
صورت مسئولہ میں بیوی  اگرچہ اپنے میکے بیٹھی ہے، لیکن حاملہ ہے۔اس لئے  اس کے تمام  اخراجات خاوند کی ذمہ داری ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ