ایک زمانے میں چرچ کے پاس یورپ کی آدھی سئ زیادہ زمین ہوا کرتی تھی۔ وہ باقاعدہ چرچ کی ملکیت تھی اور چرچ نے وہ زمین ہتھیائی نہیں تھی بلکہ لوگ مرتے وقت چرچ کے نام ڈونیٹ کر جایا کرتے تھے۔
اس مصرعہ کو ناتمام چھوڑ کر باقی غزل پوری کرتے ہیں۔ آخر میں اسے مکمل کریں گے۔
چندہ سے مراد ہماری صنف نازک والی چندہ نہیں بلکہ علماء والا چندہ ہے۔ جسے لے کر آج کل پوری شدت سے لڑائیاں جاری ہیں۔ اور چندے کے مخالفین بھی چندہ لے رہے ہیں حامیان بھی چندہ لے رہے ہیں۔ البتہ نظریاتی جنگ پورے زور و شور سے جاری ہے۔
چندہ کو لے کر ہمیں حامیان ومخالفین ہر دو سے اختلاف ہے۔ مخالفین تو یقینا وہ ہیں جن کا کسی بھی اجتماعی کام کا تجربہ نہیں، لہذا ان سب حضرات کو بھلے کروڑ پتی ہی کیوں نہ ہوں، کسی اجتماعی کام کی ذمہ دار سونپ دیجئے۔ کل کو وہ خود ہی چندہ اور آپ کے قائل ہوجائیں گے۔ کیوں کہ اجتماعی کام آج تک ہم نے تو بغیر چندہ کے ہوتے دیکھا نہیں۔ وہ کوئی ہاسپٹل ہو، کوئی انجمن ہو، یا سیاست دان ہوں۔ امریکہ جیسے بڑے ملک کے اہل علم و ہنر بھی چندہ تو مانگتے ہیں۔ وہ الگ بات کہ طریقہ ان کا جدا ہے۔ بڑی سیاسی پارٹیاں بھی چندہ لازمی طور پر طلب کرتی ہیں۔ اب تو کئی فنکاروں کو بھی چندہ کرتے دیکھا گیا ہے۔ لہذا یا تو مخالفین سے بولو کہ کوئی مدرسہ کا نظام سنبھال لیں یا کوئی خدمت خلق کا ادارہ قائم کریں  ۔ اور چندہ ہرگز نہ مانگیں!
یادش بخیر! ایک زمانے میں ہم نے مرشد سے کہا کہ مرشد ہم پہلے کمائیں گے۔ پیسہ بنائیں گے اور بعد ازاں دین کا کام کریں گے۔ تو فرمایا: مولوی کی غیرت ضرورت زیادہ ہوجائے تو کسی کام کی نہیں رہتی۔ پھر وہ نہ دین کا رہتا ہے نہ دنیا کا۔ اس دین کے لئے چندہ تو خود رسول اللہ نے مانگا ہے۔
لیکن چندہ مانگنے والوں سے ہمیں شدید شکوے ہیں۔ لہذا سننے آپ کو وہ بھی پڑیں گے۔ نہ بھی سنو گے تو کیا۔ ہم تو اپنی کہے دیتے ہیں۔ایک شکوہ تو چندہ کے مصرف کو لے کر ہے اور دوسرا شکوہ چندے کے ذرائع کو لے کر ہے۔

مزید پڑھیں: طلبہ مدارس ہنر مندی کیسے سیکھیں

ایک دفعہ میں اپنے شہر کے ایک بڑے آدمی کے پاس اپنی مسجد کے لئے چندہ لینے گیا۔ خود نہیں گیا ایک دوست لے گئے۔ اس آدمی نے ہمیں کچھ کہا تو نہیں، نہ ہی اس نے چندے سے انکار کیا۔ بلکہ اس نے کہا کہ سوموار کے دن آنا ہم آپ کے ساتھ تعاون کریں گے۔ میں تو گویا زمین میں گڑ گیا۔ اس کے میڈیکل سٹور سے باہر نکلا تو اللہ سے سیدھا ہی کہہ دیا کہ ربا، مجھ سے دوبارہ کوئی نہیں آیا جانا۔ اب مسجد تو ہی بنا کے دینا۔ خیر، کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ وہ دعا قبول ہوگئی اور در بدر بھٹکنے کی بجائے عزت سے مسجد بن گئی۔
تب سے ایک بات پلے باندھ لی کہ جب کام اللہ کا ہے تو اس میں اپنے آپ کو ذلیل کیوں کرنا؟ دار العلوم دیو بند کے ایک بزرگ گزرے ہیں نام اب یاد نہیں ارہا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ایک امیر آدمی سے ایک ہزار روپے لینے سے بہتر ہے کہ ہزار غریب آدمیوں سے ایک ایک روپے لے لیا کریں۔ ان کی بات ہماری پوری غزل کا خلاصہ ہے۔ کیوں کہ ایک روپے دیا ہوا کبھی دکھتا نہیں اور غریب آدمی ایسا گھٹیا ہو کر سوچتا بھی نہیں۔ وہ چندے کے باوجود عزت دیتا ہے علماء کو اسی لیے عام آدمی کو بتانا چاہئے کہ انفاق فی سبیل اللہ ہمارے دین کا باقاعدہ شعبہ ہے۔ وہ اس پر خرچ کرے۔ اور لوگ خرچ کرتے ہیں۔ بے تحاشہ کرتے ہیں۔

بات سادہ سی ہے۔ ہم نے دین کو حصول عزت کے لئے اپنایا ہے۔ اور دین عزت دیتا ہے عزت خراب نہیں کرتا۔یعنی چندہ مانگیں ضرور مگر چندے کی جگہوں سے۔ نہ کہ ہر امیر زادے کو اٹھا اٹھا کر اس سے پیسے مانگنے سے۔ عالم کوئی ایسا تو ہو کہ جسے دیکھ کر بادشاہ وقت کو احساس ہوا کرے کہ ابھی کچھ لوگ ایسے پائے جاتے ہیں جنہیں ہم سے کوئی غرض ہی نہیں۔
اب چندہ کے مصرف کی طرف آجاتے ہیں۔ بلا شبہ دور جتنا بھی خراب کیوں نہ آگیا ہو، مگر چندہ اب بھی کروڑوں میں ہوجایا کرتا ہے۔ لیکن اس کا مصرف؟ اکثر و بیشتر چندے کے مصارف بڑی بڑی عمارتیں ہیں۔ اس پر الگ سے دراسہ کی ضرورت ہے کہ عوام کا پیسہ ایسی بے تحاشہ عمارتوں میں لگانے کا جواز کیا ہے؟ چرچ کی تاریخ دیکھیے تو چرچ جس کے پاس یورپ کی آدھی سے زیادہ زمین ہوا کرتی تھی اور وہ لوگوں کی خدمت کیا کرتا تھا۔ جب چرچ عمارتیں بنانے لگا اور آرٹ کے میدان میں اہل دنیا کا مقابلہ کرنے لگا تو چند ہی سالوں میں چرچ کنگال ہو کر رہ گیا۔ پھر پیسے بٹورنے کے وہ وہ طریقے ایجاد کئے جو تاریخ کا حصہ ہیں۔ بپتسمہ سے لے کر معافی ناموں تک۔ کیسے کیسے لوگوں سے مال ہڑپ ہونے لگے مگر چندہ پورا ہو کر نہیں دیا اور یوں ایک وقت میں پورا یورپ چرچ کو اپنے ہی مقام پر چھوڑ کر آگے نکل گیا۔
کیوں کہ چرچ اپنا اصل کام چھوڑ کر اس کام میں پڑ گیا تھا جو کام اس کا تھا ہی نہیں۔ آج آپ یورپ کے چرچ دیکھیں ان کی عمارات ایسی عظیم الشان ہیں کہ پناہ بخدا! مگر چرچ ویران ہے۔ مجھے سمجھ یہی نہیں آتی کہ اینٹوں پر کروڑوں روپے لگا کر استاذ کو اچھی تنخواہ دیتے ہوئے کیوں رونا پڑتا ہے مہتمم صاحب کو، اربوں کی عمارات کھڑی ہیں مگر طالب علم کی روٹی ایسی کہ بسا اوقات خراب سالن بھی کھلا دیا جائے۔ شورے والے بینگن پکا کر طلباء کو ٹھسائے جائیں اور پھر ان سے امید رکھی جائے کہ وہ بیچارے صحت مند رہ کر کام کریں گے؟ ایسا نہیں ہوتا میری جان !
مدرسہ اپنے طالب علم پر انویسٹ کرنے کی بجائے پتھر لگوانے کو ترجیح کیوں دیتا ہے؟ مدرسے کا فارغ التحصیل غریب طالب علم آگے پڑھنے کے لئے محتاج کیوں ہیں؟ ہم معاشرے کو بڑے علماء دینے سے قاصر اس لئے نہیں ہیں کہ ہمارے طلباء میں پوٹینشل نہیں، بلکہ اس لئے ہیں کہ ہم اپنے طالب علم کو سرے سے اہمیت ہی نہیں دے رہے۔ بالکل غیر ضروری بلکہ بعض مرتبہ تو مکروہ کاموں میں عوام کا چندہ کھپا رہے ہیں۔

ابو الوفا محمد حماد اثری