(کیتھولک،آرتھوڈکس اور پروٹسٹنٹ) کیساتھ اس وقت دنیا میں انسانی ٹوٹل آبادی(8 ارب) میں سے 31.7 ہیں جو تقریباً 2 ارب 52 کروڑ بنتی ہے، آخر عیسائیت اتنی زیادہ کیوں ہے اس وقت؟
دو ہزار سال سے لیکر آج تک دیگر مذاھب کی بنسبت عیسائی ہی پوری دنیا میں زیادہ رہے ہیں آخر اسکی کیا وجہ؟
آئیے ذرا اسکے پیچھے چند وجوہات کو سمجھتے ہیں!

(1) تاریخی پھیلاؤ Historical Spread:
عیسائیت کی ابتدا آج سے تقریباً 2,000 سال قبل اور اسلام سے تقریباً چھ سو سال قبل مشرق وسطیٰ(Middle East) میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے عیسائیت میں انجیل سے لوگوں کو صرف بشارت، محبت، وفاداری،الفت اور معاملات میں نرمی کا درس دیا گیا جس کی بناء پر لوگوں کو یہ مذھب قبول کرنا انتہائی آسان لگا جو تقریباً انکے مزاج کے مطابق بھی تھا اگر دیکھا جائے تو اس سے قبل ملنے والے سامی مذھب یھودیت (عھد نامہ قدیم از بائبل) کے مزاج میں قدرے سختی اور جفاکشی تھی احکامِ شریعت بھی سخت تھے اس لئیے لوگوں کو اسکے متبادل یہ دین اختیار کرنا قدرے آسان لگا۔

پھر اسکے بعد عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کا مِشنری کام جو انہوں نے حقیقی حواری بن کر پیش کیا اور زیادہ سے زیادہ دین کو پھیلانے اور لوگوں تک پہچانے کی کوشش کی.
اور اسکے بعد رومن امپائر جو اس وقت کی سب سے بڑی پاور تھی اس نے بھی عیسائیت کو پھیلانے میں ریاستی اور سرکاری مشینری کو کام میں لایا اسلے خلاف بات کرنے والے خواہ وہ ملحد ہو یا فلاسفہ انکو سخت سزائیں دیں اور لوگوں کو عیسائیت کے خلاف جانے سے روکا.
پھر اس وقت کے لوگوں کا کلچر بھی عیسائیت کے ساتھ ملتا جلتا تھا اور اسی لئیے اس وقت وسیع سلطنت رومن میں عیسائیت کے پھیلنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ بہت سے لوگوں نے نئے مذہب کو ایک ایسی چیز کے طور پر دیکھا جو وہ اپنے موجودہ ثقافتی اور پہلے سے موجود مذہبی طریقوں کو تبدیل کیے بغیر آسانی سے اپنا سکتے تھے۔
اور آج بھی عیسائیت مذھبی نرمی اور آزادی کی بدولت ثقافتی پھیلاؤ کے ذریعے عالمی سطح پر پھیل رہی ہے. اور جو لوگ عیسائی ہیں وہ ایسی نرمی اور آزادی کسی دوسرے مذھب میں نہیں دیکھتے جہاں محض ایک پرچی سے مغفرت ہوجائے یا جنکا عقیدہ ہی یہ ہو کہ یسوع مسیح صلیب پر چڑھ کر انکے تمام گناہوں کا کفارہ بن گئے ہیں اس مذھب کے لوگ کیسے دوسرے مذاھب کو مانیں اتنی آزادی چھوڑ کر.

(2) تبدیلی Conversion: عیسائی تاریخ میں مختلف لوگوں اور کمیونٹیز نے مختلف عوامل جیسے ذاتی عقائد، مذہبی تجربات، سماجی اور اقتصادی و معاشی اثرات، اور عیسائی تعلیمات سے متاثر ہوکر عیسائیت کو قبول کیا ہے۔ چونکہ اس وقت پرانی مذھبی کتابیں اور تعلیمات مسخ ہوچکی تھیں اور کوئی تعلیم کا باوثوق ذریعہ بھی نہیں موجود تھا اس لئیے عیسائیت کو اپنی تعلیمات پھیلانے کا موقع بھی میسر ہوا اور پھر اس وقت لوگ بھوک مری کے عالم میں تھے اس لئے رومن امپائر اور ریاستی سخاوت کی بدولت بھی کمزور کمیونٹیز نے بڑی تیزی کیساتھ عیسائیت کو قبول کیا اور کچھ عیسائی راہبوں کی کاوشیں بھی ضرور شامل تھیں جو ناقابل فراموش تھیں.

(3) ثقافتی اثر Cultural Influence:
عیسائیت نے وقت کے ساتھ ساتھ بہت سے خطوں اور علاقوں کی ثقافتوں کو متاثر اور انہیں نئی شکل دی ہے، جیسا کہ اوپر بھی بات ہوچکی ہے کہ عیسائیت نرمی اور رواداری کی قائل ہے اسی لئیے جس بھی علاقے میں عیسائیت گئی اس نے وہاں کے اکثر مقامی رسم و رواج اور روایات کے ساتھ موافقت کا کام کیا نہ کہ اختلاف کیا اسی لئیے لوگوں کو اپنی روایات اور ثقافت بدلے بغیر ہی عیسائیت کو سینے سے لگایا اور یوں اس تاثر نے ان علاقوں میں عیسائیت کی ترقی اور تسلسل میں اہم کردار ادا کیا۔
اور پھر جب اسلام آیا اس وقت دو بڑی ریاستیں موجود تھیں رومن امپائر اور پرشین امپائر رومن امپائر میں تو اکثریت عیسائیوں کی ہی تھی تاھم پرشین امپائر فارس میں بھی کچھ آبادیاں عیسائیوں کی تھیں جنہوں نے بعد میں سکندر رومی کی بھی مدد کی تھی جب اس نے 324 ق م، میں فارس کو invade کیا،
تو اس وقت فارس کے کئی علاقوں پر اسلام کے عروج میں قبضہ بھی ہوا اور وہاں کے اکثر لوگوں نے مجوسیت کو چھوڑ کر اسلام قبول کیا جیسا کہ آج بھی فارس موجودہ ایران اور دیگر علاقے مسلمان ممالک ہیں اس وقت.
جبکہ رومن امپائر کے کئی علاقوں میں بھی اسلام کا قبضہ ہوا اور کچھ لوگوں نے اسلام قبول کیا بھی تاھم مکمل روم پر قبضہ نہ ہوا اور وہی ریاست روم بعد میں پھر عروج کو پہنچی جو بعد میں دو حصوں میں تقسیم ہوئی مشرقی اور مغربی، مشرقی حصہ بازنطینی سلطنت کہلایا جسکا دار الحکومت پہلے بازنطین تھا جو بعد میں قسطنطنیہ ہوگیا اور مغربی حصہ رومن امپائر ہی رہا.جو کہ اس وقت سب سے بڑی پاورز تھیں اسی لئیے اس وقت بھی پاور میں عیسائی ہی تھے.
تو ساری تمھید کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کا ثاثر عیسائیوں نے لیا تو ہے لیکن مضبوط سلطنت ہونے کی وجہ سے ریاستی اور مذھبی تعاون انکو ملتا رہا اور مختلف طرح سے انکو عیسائیت پر ہی ڈٹے رہنے کی پرانی کاوشیں بھی جاری رہیں جس سے بیشتر حصہ عیسائی ہی رہا.

(4) مقصدیت Missionary Efforts: عیسائی مقاصد کو پروان بخشنے والے راھبوں بادشاہوں اور دیگر پاورفل اور اثرو رسوخ رکھنے والی کمیونٹیز نے اپنے عقیدے کو فعال طور پر پھیلایا، خاص طور پر نوآبادیاتی دور(colonialism) میں عیسائیت کو پھیلانے میں بے حد ترویج ہوئی.
کئی صدیوں تک عیسائی سلطنتیں ہی کبھی رومن امپائر اور کبھی فرینچ نو آبادیاتی تو کبھی برطانوی سلطنت اور اسکی نو آبادیاتی ترجیحات نے پوری دنیا میں عیسائیت کا ہی رنگ دیا، ور اس نو آبادیاتی دور میں مِشنری تنظیموں، گرجا گھروں(school of thoughts) حتی کہ تعلیمی اداروں کے ذریعے دنیا کے مختلف حصوں میں مسیحی برادریاں قائم ہوئیں.
آج بھی ایسے مشنری لوگ مسیحی کمیونٹی میں موجود ہیں جو لوگوں کو معجزات اور عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کی طرف راغب کررہی ہے.

اور یہ لوگ پچھلے 100 سالوں میں سب سے تیزی سے بڑھنے والا گروپ ہیں جو ہولی اسپرٹ موومنٹ کے اندر ہیں (روح القدس خدا کی روح ہے)۔
یہ تحریک بنیادی طور پر Pentecostal-Charismatics پر مشتمل ہے،
جو عیسائیت کے دونوں بڑے گروہوں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک کے اندر ہیں۔
یہ تحریک خدا کی طرف سے بہت سے معجزاتی، مافوق الفطرت اور روحانی انکشافات کو دیکھتی ہے

(5) مذہبی آزادی Religious Freedom: آپ اسے لبرل ازم یا سیکولرز سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں یعنی عیسائیت چونکہ نرمی والا مذھب ہے تو اس مخلتف آسانی والے نظریات اور تنظیموں کو بھی اپنے اندر جگہ دی جس سے لوگوں کو عیسائیت میں رہنے کیلئے اپنے نظریات قور تنظیموں پر سمجھوتہ نہیں کرنا پڑا یہ لبرلزم اور سیکولر ازم جو معاشی اور سیاسی دونوں نظاموں میں مذھبی مداخلت کا قائل نہیں یہ انہی عیسائی ممالک میں ہی رائج ہوا ہے،
بہت سے عیسائی ممالک میں، افراد کو اپنے مذہب کا انتخاب کرنے اور اس پر عمل کرنے کی آزادی ہے اپنی پرسنل ڈیزائر کو پورا کرنے اور جیسے دل کرتا ہے ویسے ہی جینے کی کھلی چھوٹ، پھر ہر نظم میں انفرادیت کی ترویج ہے.
جس سے عیسائیت کو پھلنے پھولنے اور پیروکاروں کو اپنی طرف راغب کرنے کا موقع ملا اور لوگ مذھبی ہوکر بھی بے دین اور بے عمل رہیں اور مغفرت کی پرچی لیکر اطمینان والی زندگی گزاریں انکو کیا ضرورت کہ وہ کسی دوسرے مذھب کو اختیار کریں؟!
اسی لئیے میں عیسائیت یا الحاد کو کوئی نظریہ نہیں سمجھتا بلکہ یہ ایک انسانی بدعملی اور غفلت کو cover دینے کے فلسفی اور منطقی طریقے ہیں!

اور عیسائیوں کو گمراہ کرنے میں کچھ رہتی سہتی کسر اس چیز نے نکال دی کہ وقتاً فوقتاً عیسائیت اپنے عقائد اور سیاسی نظم کی وجہ سے بڑے بڑے گروہوں میں تقسیم ہوتی رہی ہے جس سے لوگوں لو یہی لگتا رہا ہے کہ ہر آنے والا گروہ سابقہ مذھب کی تجدید کررہا ہے اور مسیحیت کو تحریفی غلطیوں سے پاک کررہا ہے،
شروع میں مسیحیت کے چار فرقے بنے جو بتدریج یعقوبیہ، ملکانیہ، نسطوریہ اور مرقوسیہ کے نام سے مشھور ہوئے اور پھر گیارویں صدی میں رومن امپائر کے مشرقی اور مغربی کلیسا کی تقسیم کے وقت جغرافیائی اور مذھبی دونوں طور پر دو بڑے گروہ تقسیم ہوئے کیتھولک کے بعد مشرقی کلیسا پر مبنی آرتھوڈوکس عیسائیت معرض وجود میں آئی اور پھر 16ویں صدی میں مارٹن لوتھر کے کیتھولک چرچ سے اختلاف کی وجہ اور اس پر نقد کی وجہ سے اس ایک تحریک چلی جسکو پروٹسٹنٹ اصلاحِ کلیسیا کہا جاتا ہے.
مارٹن لوتھر ایک جرمن راہب تھا اس وقت مروجہ مسیحیت پر اس کی تنقید عقلی دلائل کی بنا پر تھی جسکی بدولت لوگوں نے کیتھولک عیسائیوں کے زور و جبر کے باوجود اس تحریک کو مانا اور اسکو پروان بخشا اور یوں ایک نیا فرقہ پروٹسٹنٹ معرض وجود میں آیا.
انہی مذھبی تبدیلوں سے لوگوں کو لگتا ہے کہ عیسائیت میں تجدید ہوتی رہی ہے اور اسے تحریفات سے محفوظ رکھا گیا ہے اور اسی طرح رکھا جاتا رہے گا.حالانکہ یہ تبدیلیاں عیسائی زندگی میں کچھ زیادہ فرق بھی نہیں لائیں اور بیشتر تبدیلیاں تو سیاسی نظم کے تبدیل ہونے سے معرض وجود میں آئیں!

عمیر رمضان