سوال (2083)
عموماً نو اور دس محرم کو لوگ طرح طرح کے کھانے پکاتے ہیں، لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں تو ان میں سے بعض تو وہ ہوتے ہیں، جو حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر نذر ونیاز کرتے ہیں تو یہ صریحا حرام ہوا ہے، لیکن جن کا مقصد یہ نہیں ہوتا ہے، بس ویسے ہی کوئی چیز بنا کر تقسیم کردی، ہیا دیکھا دیکھی کوئی چیز بنائی ہے اور لوگوں کے گھروں میں بانٹ دی ہے، ایسی چیز کے استعمال کرنے کا کیا حکم ہے، اگر کوئی گھر میں دے جاتا ہے تو اس کا کیا کیا جائے؟
جواب
غير الله کی خوشنودی کے لیے اور ان سے ڈرتے ہوئے کوئی چیز ان کے لیے دینا جیسے بکرے، چھترے، نذر ونیاز، کھیر وغیرہ یہ کھلا شرک اکبر ہے اور یہ مالی عبادت ہے جو صرف الله سبحانه وتعالى کا حق ہے، اگر یہ نیت وارادہ نہیں تب بھی ان خاص ایام میں اجتناب کریں، تاکہ خاص لوگوں کے غلط نظریات ومقاصد کے ساتھ بظاہر موافقت و تائید ہوتی نظر نہ آئے
لوگ مزید اس گناہ میں حقیقت جانے بغیر مبتلا نہ ہونے لگ جائیں اور اس غیر شرعی عمل کو صحیح نہ سمجھنے لگ جائیں، شیعہ کے ان ایام مخصوصہ کے علاوہ سال بھر میں جب چاہیں الله تعالى کی راہ میں مال خرچ کریں کھانہ بنائیں اور کھلائیں۔
مگر آج اکثر لوگ بغیر تحقیق کیے حقائق سے واقفیت رکھے اور جانے بغیر نیاز حسین، دودھ، پانی کی سبیل لگانے کا اہتمام کرتے ہیں جو شیعہ گمراہ فرق کے ساتھ تعاون اور ان کی تعظیم و توقیر بھی ہے۔
جبکہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖوَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ [المائدہ: 2]
«اور نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے»
دین اسلام مکمل ہو چکا ہے، اس کامل و اکمل دین میں ہر وہ کام جسے عبادت، نیکی سمجھ کر یا عبادت ونیکی کا درجہ دے کر کیا جائے اور اس کی اصل اور اثبات قرآن وحدیث میں موجود نہیں ہو اور تعامل صحابہ کرام بھی اس پر موجود نہیں ہو تو وہ عبادت ونیکی بلاشبہ بدعت اور شریعت سازی والا کام ہے بلاشبہ الله تعالى اور رسول کریم صلی الله علیہ وسلم سے آگے بڑھنا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖوَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ [الحجرات: 1 ]
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
رب العالمین کے اس فرمان مبارک کی روشنی میں اہل بدعت بلاشبہ الله تعالى رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے وہ کام کر کے آگے بڑھ رہے جن کا ذکر اور جنہیں عبادت ونیکی ہونا کا درجہ الله تعالى ،رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے نہیں دیا ہے۔
اس پر کئی ایک ادلہ کتاب وسنت میں موجود ہیں
کلمہ پڑھنے کا تقاضا یہ ہے دین اسلام کی جتنی تعلیمات وہدایات ہیں انہی کو کافی سمجھا جائے اور ان پر عمل کیا جائے اور بدعات وخرافات سے اجتناب کیا جائے انبیاء کرام علیھم السلام، صحابہ کرام واہل بیت رضی الله عنھم اجمعین کے ساتھ محبت وعقیدت کرتے ہوئے غلو وتاویل سے کلی اجتناب کیا جائے تا کہ ہمارا عقیدہ وایمان کفر وشرک سے محفوظ رہے۔
اہل بدعت سے دوستی رکھنا ان کی مجالس وبدعات میں معاون بننا نہایت خطرناک عمل ہے اور رب العالمین کی ناراضگی کو حاصل کرنے کا سبب ہے۔
آخر پر ایک حدیث مبارک بیان کرتا ہوں جس معلوم ہوتا ہے کہ بدعتی کی عزت و توقیر کرنا کتنا سنگین جرم اور دین اسلام کے لئے کس قدر نقصان دہ عمل ہے۔
ﻋﻦ ﻋﺎﺋﺸﺔ ﻗﺎﻟﺖ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻣﻦ ﻭﻗﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﺪﻋﺔ ﻓﻘﺪ ﺃﻋﺎﻥ ﻋﻠﻰ ﻫﺪﻡ اﻹﺳﻼﻡ
[الشریعہ للآجری : 2040 سنده حسن لذاته]
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کسی بدعتی کی عزت وتکریم کی تو درحقیقت اس نے اسلام کو گرانے پر مدد کی ہے۔
اہل بدعت کی مجالس ان سے دوستی قائم کرنے سے اجتناب کرنے پر سلف صالحین بھی روکتے تھے تا کہ ایک صحیح العقیدہ مسلمان اپنا عقیدہ وایمان خراب نہ کر لے
اہل بدعت تو وہ بدنصیب لوگ ہیں جن سے توبہ کی توفیق تک صلب کر لی گئ ہے اس سے آپ بدعت کی نحوست وشدت اور سنگینی کو جان سکتے ہیں۔
والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ