سوال

مفتیان کرام سے گزارش ہے کہ آج کل ڈراپ شپنگ کا کاروبار بہت ہورہا ہے، اس کے متعلق بتائیں کہ یہ جائز ہے کہ نہیں؟اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایمازون وغیرہ کے ذریعہ آن لائن ہوتا ہے۔ ایک آدمی اپنی آن لائن دکان شو کرتا ہے، لیکن اس کے پاس حقیقت میں کوئی سامان نہیں ہوتا ،صرف نام اور تصاویر موجود ہوتی ہیں، جونہی کوئی شخص اسے آرڈر کرتا ہے، تو وہ آگے کسی سے مطلوبہ چیز خرید کر، خریدار کو مہیا کردیتا ہے۔ اس میں عام خرید و فروخت کی طرح، اگر مطلوبہ چیز پسند نہ آئے، تو چیز واپس کرنے کا بھی اختیار ہوتا ہے. برائے مہربانی بیان فرمادیں کہ خرید و فروخت کی یہ صورت جائز ہے کہ نہیں؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم سیمپل دیکھا کر آرڈر لیتے ہیں۔ایمازون میں جو دکان دیکھائی جاتی ہے اس کے اندر تصاویر ہوتی ہیں، اور ان کی تفصیلات یعنی صفات بھی درج ہوتی ہیں۔
اور پھر وہ چیز انہیں صفات کے مطابق مہیا کی جاتی ہے۔ اگر تھوڑا سا بھی فرق ہو تو کسٹمر کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ اس چیز کو واپس کرنا چاہے تو واپس کر دے۔ایمازون درمیان میں ضامن کے طور پر ہوتا ہے۔ایمازون کی ضمانت ہوتی ہے کہ چیز کسٹمر تک صحیح پہنچے گی۔
اگر کوئی فراڈ کرتا ہے تو فورا پکڑا جاتا ہے اس کی دکان بھی بند کر دی جاتی ہے اور اکاؤنٹ بھی بند کر دیا جاتا ہے، اور اس کے اکاؤنٹ میں جو رقم ہوتی ہے وہ بھی کچھ مدت تک ضبط کر لی جاتی ہے، اس رقم میں وہ تصرف نہیں کرسکتا ہے۔
اور ایمازون کی ذمہ داری چیز کسٹمر تک پہنچانے کی بھی ہوتی ہے۔چیز پہنچا کر ایمازون تسلی کرتا ہے کہ کسٹمر اس چیزپر مطمئن بھی ہے یا نہیں اگر مطمئن ہے تو رقم ایمازون میں منتقل ہو جاتی ہے پھر تسلی کرنے کے بعد ایمازون کام کرنے والوں کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کرتا ہے۔
ایمازون کا کام بیع سلف یا بیع سلم کی طرح چلتا ہے۔ اس میں بھی یہی ہوتا ہے کہ جنس معلوم ہوتی ہے،اور نوعیت کونسی ہےاور قیمت کیا ہے ادائیگی کب اور کہاں ہوگی یہ ساری چیزیں پہلے سے طے ہوتی ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“مَنْ أَسْلَفَ فِي تَمْرٍ، فَلْيُسْلِفْ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ، وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ، إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ”. [مسلم:1604]

’جو کھجور میں بیع سلف کرے تو وہ معلوم ماپ اور معلوم وزن میں معلوم مدت تک کے لیے کرے‘۔
اگر تو یہ کاروبار مذکورہ تفصیلات کے مطابق ہو، کہ بیچنے والا تصاویر دکھا کر، چیز خرید کر، پھر آگے فروخت کرے، تو اسمیں کوئی چیز خلافِ شریعت نہیں ہے۔
 لیکن اگر معاملہ اس سے مختلف ہو، مثلا:
تصاویر کوئی اور ہوں، اور چیز کوئی اور ہو، تو یہ دھوکہ ہے، جو کہ ناجائز ہے۔
اسی طرح اگر بیچنے والا چیز خود خرید کر، آگے فروخت کرنے کی بجائے، آرڈر کہیں اور منتقل کردے، تو یہ بھی درست نہیں۔ کیونکہ نبی ﷺ نے اس چیز کو بیچنے سے منع کیا ہے جس پر قبضہ نا ہو ۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“لاَ تبع ما ليسَ عندَكَ”.(ترمذي:1232)

’’جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کو خروخت نہ کرو‘‘۔
مزید فرمایا:

“منِ ابتاع طعامًا فلا يبعْه حتى يستوفيَهُ” (صحيح البخاري:2136)

’جو شخص غلہ خریدے تو جب تک اسے پورا وصول نہ کر لے اسے آگے فروخت نہ کرے‘۔
البتہ جو اشیاء ملکیت و قبضہ میں نہیں ہیں، ان کے حوالے سے اپنے آپ کو مالک ظاہر نہ کریں ،بلکہ بطور وکیل یا کمیشن ایجنٹ بن کر ان اشیاء کو فروخت كيا جائے، تو یہ صورت جائز ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں وہ شخص اس کمپنی اور مالک کا ملازم تصور ہوگا، اور آرڈر لے کر ان کو دے گا، اور وہ آگے چیز گاہک کو بھیجیں گے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ