سوال

ایک تحفیظ القرآن کا ادارہ ہے جس میں قرآن مجید کی تعلیم کے ساتھ ساتھ نماز مسنون اذکار، اسلامی عقائد اور معاشرے میں ایک باوقار مسلمان ہونے کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے۔ ادارے میں طلبہ کے لیے بھاری بھر کم داخلہ فیس اور ماہانہ فیس بھی رکھی گئی ہے۔ البتہ ان کا کہنا ہے کہ فیسوں سے ادارے کے اخراجات پورے نہیں ہورہے اور  ساتھ یہ بھی دعوی ہے کہ جو بچہ استطاعت نہیں رکھتا یا یتیم ہو ان بچوں کو فیس کے بغیر ہی  پڑھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور دینی سرگرمیاں ہیں جو فری میں کرواتے ہیں۔

کیا ایسے ادارے کو صدقات و زکاۃ دیے جاسکتے ہیں؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

زکاۃ ہر جگہ نہیں دی جاسکتی ہے، بلکہ اس کے خاص مصارف ہیں، زکاۃ انہیں کا حق ہے، اس کے علاوہ دیگر جگہوں پر زکاۃ خرچ  کرنا، مستحقین کی حق تلفی ہے۔ قرآن کریم میں زکاۃ کے مصارف کو درج ذیل آیت میں بیان کیا گیا ہے:

“ِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ”. [التوبة:60]

’صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکاۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے‘۔

یہ کل آٹھ مصارف ہیں۔ رہائشی دینی  مدارس میں چونکہ اکثر تعداد ایسے طلبہ کی ہوتی ہے، جو کہ فقراء ومساکین اور مسافروں کے ضمن میں آتی ہے، اور انہیں کھانا پینا، تعلیم و تربیت اور رہائش وغیر ہ تمام سہولیات مفت دی جاری رہی ہوتی ہیں، اس وجہ سے  دینی مدارس کو زکاۃ دینا  جائز ہے۔

لیکن جو صورتِ حال اوپر سوال میں بیان کی گئی ہے  یہ تو ایک پرائیویٹ اسکول سسٹم محسوس ہوتا ہے، جس میں طلبہ سے فیسیں لی جاتی ہیں، اور  پڑھنے والے طلبہ اگر کسی پوش ایریا کے تعلیمی ادارے کی بھاری بھر کم فیسیں ادا کر رہے ہیں، تو یقینا وہ فقراء و مساکین کے تحت مستحقین زکاۃ میں تو نہیں آتے ہوں گے!

اس ادارے کو چاہیے کہ دو میں سے ایک ماڈل اختیار کرلیں: یا تو تعلیم وغیرہ مکمل سہولیات مفت دیں اور  اس خیراتی ادارے کے  اخراجات کے لیے صدقہ و خیرات وصول کرلیں۔ یا پھر اسے مکمل کمرشل ادارہ بنائیں اور فیسیں لے کر اخراجات پورا کریں جیسا کہ دیگر تعلیمی ادارے کرتے ہیں۔ یہ درست نہیں کہ فیسیں بھی لیں اور ساتھ زکاۃ و صدقات بھی۔ کیونکہ یہ تو صدقات و زکاۃ کو اپنے کاروبار پر لگانے کے مترادف ہے جو کہ قطعا درست نہیں۔

کمرشل اداروں میں مستحق طلبہ جو اپنے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے، کے لیے زکاۃ وغیرہ لینے کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ان کے لیے بالکل الگ کھاتہ اور مستقل فنڈ قائم کیا جائے ، اور  ان کے نام پرآنے والا چندہ انہیں مستحق طلبہ  کی فیسز اور دیگر سہولیات کے لیے استعمال کیا جائے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ