سوال

ہم دو بھائی اکٹھے، یعنی جائیداد کا بٹوارہ کئے بغیر، مشترکہ حیثیت سے رہ رہے ہیں۔ بڑا بھائی ایران میں 4،5 سال نوکری کرتا رہا، پھر سعودی عرب میں 22،23 سال نوکری کی، اسی طرح پاکستان میں بھی 25 سال ملازمت کی۔ اس دوران اس بھائی نے جو کچھ کمایا ، سب اس چھوٹے بھائی کو بھیجتا رہا، جس سے گھر کا پورا خرچہ 1982 ءسے لیکر 2007ءر تک چلتا رہا۔ (حالانکہ آبائی جائیداد کافی زیادہ زرعی زمینیں ہیں)
اسی دوران اس بڑے بھائی نے اپنے ہاتھ کی خالص کمائی سے اس چھوٹے بھائی کو رقم بھیجی کہ میرے لیے یہ پلاٹ ، پلازہ وغیرہ خرید لو۔ اس خریداری میں آبائی جائیداد یا اس چھوٹے بھائی کا ایک روپیہ بھی شامل نہیں ہے، لیکن چونکہ بڑا بھائی نوکری کے سلسلے میں ملک سے باہر تھا۔ تو اس چھوٹے بھائی نے انکی رقم سے وہ جائیدادیں خریدیں اور دھوکہ دہی کرتے ہوئے اپنے نام لکھوا لی۔ جب بڑے بھائی کو اس دھوکے،فراڈ کا پتا چلا تو اس نے چھوٹے سے اس خریدی ہوئی جائیداد کی ڈیمانڈ کی جو خالص اسکی ہاتھ کی کمائی تھی، تو چھوٹے نے صاف انکار کردیا کہ چونکہ ہمارا بٹوارہ نہیں ہوا، ہم مشترک ہیں، لہذا یہ خریدی ہوئی جائیداد بھی مشترک ہوگی، آدھا تیرا اور آدھا میرا۔
اس چھوٹے بھائی نے یہ رقم بطور قرض نہیں لی تھی بلکہ بڑے بھائی نے بطور وکیل اس چھوٹے کو جائیداد خریدنے کے لیے رقم بھیجی تھی۔
میرا سوال یہ ہے کہ شریعت محمدی اور قرآن مجید کا واضح حکم ایسے مسئلے میں کیا ہے؟ کیاہاتھ کی کمائی میں سب بہن بھائی حصہ دار تصور ہونگےیا ہر کسی کی اپنی اپنی ہوگی ؟رہنمائی فرمادیں۔ شکریہ

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:

“إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ”[النساء:58]

اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ! اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل وانصاف سے فیصلہ کرو۔
سوال میں بیان کردہ صورتِ حال اگر درست ہے، تو چھوٹے بھائی کو یہ حق نہیں کہ وہ بڑے بھائی پر زیادتی کرے۔ جبکہ بڑا بھائی باہر رہتا ہے اور کاروبار کرتا ہے، اور گھر کا سارا خرچہ اسی پہ چلتا ہے۔ اگر چہ ان کے تمام معاملات مشترکہ ہیں، لیکن بڑے بھائی نے اس رقم کے بارے میں وضاحت کر دی تھی کہ یہ رقم میرے ہاتھ کی کمائی ہے، اس کو مشترکہ نہ سمجھا جائے، اس سے آپ نے میرا پلاٹ اور پلازہ وغيره خریدنا ہے ، تو چھوٹے بھائی کے لیے ضروری تھا کہ یہ ساری جائیداد اپنے اسی بڑے بھائی کے نام پر ہی کرواتا، جس نے اسے بطورِ وکیل یہ سب معاملات سرانجام دینے کے لیے کہا تھا۔
لیکن اس نے عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا ، اور دھوکہ دہی سے کام لیتے ہوئے اسے اپنےنام پر رکھا، اور اب دعوی کردیا کہ یہ سب مشترکہ جائیداد ہے، جس میں سب بہن بھائی حصہ دار ہیں ۔ یہ غلط اقدام ہے، عقل و شرع کے منافی اور عدل وانصاف کے تقاضوں کےخلاف ہے۔
لہذا چھوٹے بھائی کو چاہیے کہ یہ اللہ سے ڈرے اور بھائی کے پیسوں سے جو جائیداد خریدی ہے، وہ اس کے نام کروائے۔ کیونکہ یہ اس کے پاس امانت ہے اور قرآن کریم کے مطابق امانت اس کے اہل کو واپس کرنا ضرورى ہے ۔ یہ دنیا ہے دنیا کا سازوسامان یہاں ہی رہ جائے گا۔ آخرت کو ہم نے اللہ کے ہاں پیش ہونا ہےتو اللہ تعالیٰ ہماری نیکیاں لے کر یا حقدار کی برائیاں ہمارے کھاتے میں ڈال کر حساب برابر کرے گا۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ