سوال

علانیہ گستاخ صحابہ کو گرفتار کیا گیا اب وہ اور اس کے اہل خانہ معافی مانگ رہے ہیں، کیا اسے معاف کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ہر دو امر کا دلیل سے جواب درکار ہے۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

 بلاشبہ گستاخِ صحابہ بدبخت اور منحوس آدمی ہے کہ انبیاء کے بعد روئے زمین کی افضل ترین ہستیوں سے متعلق نازیبا رویہ اختیار کرتا ہے، حالانکہ بدزبانی اور بہتان طرازی کسی عام مومن سے متعلق بھی جائز نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

“لا تسبوا أصحابي، فوالذي نفسي بيده لو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما أدرك مُدّ أحدهم ولا نصيفه”. [بخاری:3673 ، مسلم:2540]

’میرے صحابہ کرام کو برا بھلا نہ کہو، اللہ کی قسم ! اگر تم احد پہاڑ برابر سونا بھی خرچ کرو، تو ان کے ایک مُد بلکہ آدھے مد کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتے۔‘
سورہ فتح کے آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کی فضیلت بیان کرتے ہوئے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

{لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ} [الفتح: 29]

’تاکہ اللہ تعالی ان صحابہ کی وجہ سے کافروں کو غیظ وغضب دلائے۔‘
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“من أصبح من الناس في قلبه غيظ على أحد من أصحاب رسول الله، فقد أصابته هذه الآية”. [تفسير القرطبي:16/297]

’جس شخص کے دل میں صحابہ میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی کینہ وبغض ہے، وہ اس آیت کا مصداق ہے‘۔
گویا ناقدینِ صحابہ کافروں کے ہمنوا ہیں اور یہ لوگ در حقیقت اللہ رب العالمین کی تردید ، اور قرآن و حدیث دونوں کے انکار میں مبتلا ہیں۔
امام طحاوی رحمہ اللہ صحابہ کرام سے متعلق مسلمانوں کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

“ونحب أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا نفرط في حب أحد منهم ، ولا نتبرأ من أحد منهم ، ونبغض من يبغضهم، وبغير الخير يذكرهم، ولا نذكرهم إلا بخير، وحبهم دين وإيمان وإحسان، وبغضهم كفر ونفاق وطغيان”. [العقيدة الطحاوية:57]

’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے محبت رکھتے ہیں، نہ کسی کی محبت میں غلو کرتے ہیں، اور نہ ہی کسی صحابی سے براءت کا اظہار کرتے ہیں، جو ان سے بغض رکھتا ہے، یا ان کی برائیاں کرتا ہے، ہم اس سے بغض رکھتے ہیں، ہم صحابہ کی صرف اچھائیاں بیان کرتے ہیں، اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان سے محبت دین، ایمان اور احسان ہے، اور ان سے بغض رکھنا، کفر، نفاق اور سرکشی ہے‘۔
 جہاں تک سزا کا معاملہ ہے تو گستاخ صحابہ کا معاملہ گستاخ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا نہیں ہے۔گستاخِ رسول کی شریعت نے سزا مقرر فرمائی ہے، جبکہ گستاخِ صحابہ کی کوئی متعین سزا نہیں ہے۔
قاضی گستاخی کی نوعیت اور حالات وظروف کے مطابق اس کی سزا تجویز کرسکتا ہے۔ کبھی تو یہ فساد فی الارض کے زمرے میں آتی ہے اور کبھی بہتان کے زمرے میں اور کبھی اس سے ہلکے درجہ میں۔
اسی طرح کبھی حالات اس بات کے متقاضی ہوتے ہیں، کہ گستاخ صحابہ کو سخت سزا دی جائے، اور کبھی ہلکی پھلکی سزا بھی کافی ہوتی ہے۔
معافی کا معاملہ بھی قاضی کے سپرد ہے، کہ اگر گستاخ صحابہ کے معافی طلب کرنے پہ اسے معاف کرنے سے زیادہ خیر کی توقع ہو، تو معاف بھی کیا جاسکتا ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ