سوال (952)

شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ کا ابھی ایک کلپ سنا ہے وہ کہہ رہے ہیں خطبہ جمعہ کے دوران خطیب کا یمینا و شمالا التفات خلاف سنت ہے صرف سامنے دیکھ کر گفتگو کرے ، لیکن ہمارے ہاں بعض مساجد کے اندرونی لمبے کم اور چوڑے زیادہ ہوتے ہیں خطباء حضرات کثرت سے التفات کرتے ہیں ۔ اس حوالے سے سے رہنمائی درکار ہے؟

جواب

خطیب صرف سامنے ہی دیکھنے کا پابند یا مکلف نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

کان النبی اذا خطب یخطب تلقاء وجهه
قال بن قدامة ” ومن سنن الخطبة أن يقصد الخطيب تلقاء وجهه لأن النبي – صلي الله عليه وسلم – كان يفعل ذلك ولأنه أبلغ في سماع الناس وأعدل بينهم فإنه لو التفت إلي أحد جانبيه لأعرض عن الجانب الآخر ولو خالف هذا واستقبل الناس واستقبل القبلة لصحت الخطبة

فضیلۃ الباحث حافظ طلحہ علوی حفظہ اللہ

ان کا استدلال اس حدیث سے ہی معلوم ہو رہا ہے:

عن سمرة بن جندب رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا خطبنا استقبلناه بوجوهنا واستقبلنا بوجهه۔

جبکہ استقبال الناس صرف بیٹھنے والوں کا ہی نہیں بلکہ پوری مسجد میں بیٹھے لوگوں کا ہونا چاہیے اور پوری مسجد میں بیٹھنے والوں کےلیے کیسے ممکن ہے جب یمینا شمالا التفات نہیں ہوگا ۔

فضیلۃ الباحث طلحہ ارشد حفظہ اللہ

شیخ میں اصل میں یہ سوال کرنا چاہ رہا تھا کہ ہمارے ہاں تو التفات بہت زیادہ ہے کیا خطباء کو اس بات پر تنبیہ نہیں کرنی چاہیے

فضیلۃ الباحث حافظ طلحہ علوی حفظہ اللہ

التفات دیواروں کی طرف نہیں کرتے بلکہ التفات صرف لوگوں کی طرف ان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے ۔ یہی روایت کے اندر بیان ہوا ہے ۔ “استقبلناه بوجھه” سے یہی مراد ہے

فضیلۃ الباحث طلحہ ارشد حفظہ اللہ