سوال

کیا میت کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جاسکتی ہے؟ شریعت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

غائبانہ نماز جنازہ  ادا کرنا جائز ہے، جیسا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی رضی اللہ عنہ کی غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی تھی۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

“أنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَى النَّجَاشِيَّ فِي الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ وَخَرَجَ بِهِمْ إِلَى الْمُصَلَّى فَصَفَّ بِهِمْ وَكَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ”.  [صحیح البخاری:1333]

’جس دن حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی وفات ہوئی تو اسی روز رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس کے فوت ہونے کی خبرسنائی، پھر آپ لوگوں کو لے کر جنازگاہ گئے، ان کی صفیں بنائیں پھر غائبانہ نماز جنازہ پڑھتے ہوئے اس پر چار تکبیریں کہیں‘۔

البتہ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ غائبانہ نماز جنازہ صرف نجاشی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہے کیونکہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تمام پردے ہٹا دیئے گئے تھے اور نجاشی رضی اللہ عنہ کی میت آپ کے سامنے تھی، لیکن امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے محض اوہام و خیالات سے تعبیر کیا ہے، اسی طرح علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس تاویل کو فاسد قرار دیا ہے۔ [المجموع للنووي :5/ 253، احكام الجنائز للألباني:92]

چونکہ خصوصیت کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس لئے یہ عمل بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی کے دیگر اعمال کی طرح قابل نمونہ ہے، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ نجاشی کی نماز جنازہ اس علاقہ میں نہیں پڑھی گئی تھی اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نماز جنازہ پڑھنے کا اہتمام فرمایا، لیکن اس بات کی وضاحت کسی دوسری حدیث میں نہیں ہے کہ حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ کا جنازہ اس کے علاقہ میں نہیں پڑھا گیا تھا ، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

«لَمْ أَقِفْ فِي شَيْءٍ مِنَ الْأَخْبَارِ عَلَى أَنَّهُ لَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ فِي بَلَدِهِ أَحَدٌ». [فتح الباري : 3/ 188]

’ ایسی کوئی خبر میرے علم میں نہیں، جس سے معلوم ہو کہ نجاشی کی نماز جنازہ اس کے شہر میں نہیں پڑھی گئی تھی ‘۔

البتہ  اہل علم یہ ضرور کہتے ہیں کہ ہر مسلمان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا  مسنون نہیں ہے ، جیسا کہ امام ابن قیم فرماتے ہیں:

«وَلَمْ يَكُنْ مِنْ هَدْيِهِ وَسُنَّتِهِ صلى الله عليه وسلم الصَّلَاةُ عَلَى كُلِّ مَيِّتٍ غَائِبٍ فَقَدْ مَاتَ خَلْقٌ كَثِيرٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَهُمْ غُيَّبٌ، فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِمْ». [زاد المعاد – ط الرسالة 1/ 500]

’ہر میت کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور عادت مبارکہ نہیں تھی، کیونکہ بہت سارے مسلمان  مختلف جگہوں پر فوت ہوئے لیکن آپ نے ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی‘۔

البتہ جس مسلمان شخصیت  کا معاشرے میں علمی، سیاسی اور رفاعی طور پر اثر و رسوخ  اور مقام ہو، اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے جیسا کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی رضی اللہ عنہ کے لیے کیا تھا۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ