سوال
الفت سلیم (بنت: جمیل بیگم) اپنی والدہ کے بینک اکاؤنٹس کے انتظامی امور سنبھال رہی تھی وہ ٹھیک تھا اور خوش رہے۔ پھر ایک میٹنگ ہوئی، اور بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے خاندان کے بعض افراد کی طرف سے ناحق، غلط اور جھوٹے الزامات (چوری، دھوکا، بدعنوان، امانت میں خیانت)، وغیرہ کے الفاظ الفت سلیم بیگم کے خلاف لگائے گئے۔ جو بغیر کسی دو عادل گواہان، شہادت اور ثبوت کے تھے۔
اور اسی میٹنگ میں ایک معاہدہ (یہ اسٹیمپ پیپر کا قانونی معاہدہ نہیں ہے) کے ذریعے سے ان بینک اکاؤنٹس کو الزام لگانے والوں نے الفت سلیم بیگم سے لے کر جمیل بیگم کی ایک اور بیٹی اور اسکے شوہر کے حوالے کرا دیے تاکہ وہ دونوں میاں بیوی ان بینک اکاؤنٹس کا انتظام سنبھالیں۔
بعد میں اس شخص نے ناحق، غلط اور جھوٹے الزامات الزام تراشی تہمت اوربہتان لگانے کا خود اعتراف، تسلیم، اور اقرار اپنے بیان میں اسی میٹنگ میں کیا۔
اب یہاں تین سوالات ہیں کہ کیا:
ان لوگوں کا جھوٹے الزامات اور بہتان طرازی کرکے ایک مسلمان کی عزت پرحملہ آور ہونا، شریعت اس حوالے سے کیا کہتی ہے؟
اس غیر منصفانہ معاہدہ کی بنا پر کیے گئے فیصلے کالعدم تصور ہوں گے؟ اور کیا اکاؤنٹس دوبارہ الفت سلیم بیگم کو ملیں گے کہ نہیں؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
اصولی اور بنیادی بات یہ ہے کہ جو محترمہ اکاؤنٹس کی مالک ہیں، وہی اس میں تصرف کی حقدار اور اختیار رکھتی ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے ان کا انتظام و انصرام جن کو دینا چاہیں، دے سکتی ہیں۔ اولاد میں سے ہر ایک کو بوڑھی والدہ کی صحت و عافیت اور خوشی کا خیال رکھنا چاہیے۔ نہ کہ آپسی اختلافات میں الجھ کر ان کے لیے رنج و غم کا سبب بنیں۔
یہ بھی اسلام کی بنیادی تعلیمات ہیں کہ جھوٹ بولنا، بہتان طرازی کرنا، یہ سب حرام بلکہ کبیرہ گناہ ہیں۔ اور ایسے مرد یا عورت یا افراد کو اللہ سے بھی توبہ کرنی چاہیے، اور جن پر الزامات لگائے، ان سے بھی معافی مانگنی چاہیے۔ ورنہ کل قیامت والے ان سب چیزوں کا حساب دینا ہوگا۔
اگلی دو باتوں سے متعلق ہم کوئی بھی فیصلہ کن رائے نہیں دے سکتے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرتِ علی رضی اللہ عنہ کو یہ نصیحت فرمائی تھی:
لَا تَقْضِ لِلأَوَّلِ حَتَّى تَسْمَعَ كَلَامَ الآخَر. [سنن الترمذي:1331]
’دوسرے کو سنے بغیر پہلے کے لیے فیصلہ نہ کرنا‘۔
لہذا ایسے معاملات جن میں فریقین میں اختلاف ہو، اس میں کسی ایک کی بات سن کر کوئی رائے دینا ممکن نہیں ہوتا۔پوچھے گئے مسئلہ میں بھی یہی صورت حال ہے۔جس میں یکطرفہ بات سن کر ایک فریق کو درست اور دوسرے کو غلط قرار دینا ممکن نہیں ہے۔
بالخصوص جب سوال میں مذکور ہے، کہ سب افراد نے آپس میں بیٹھ کر ایک میٹنگ اور معاہدہ کیا تھا، اور اس کے بعد اکاؤنٹس ایک سے دوسری طرف منتقل ہوئے ہیں۔
ایسے مسائل کا بہتر حل یہی ہوتا ہے کہ فریقین کسی عالم دین کے پاس حاضر ہوں، اور اپنی اپنی بات بتا کر ان سے فیصلہ کروالیں۔ورنہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہر فریق اپنے انداز سے بات سنا اور بتا کر، اپنے حق میں فتوی حاصل کرلیتا ہے، اور معاملہ سدھرنے کی بجائے مزید بگڑتا ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف سندھو حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ