کوئی دِن مخصوص و متعین کرکے منانا؟

اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مخصوص کردہ دنوں کے علاوہ کسی بھی دن کو خود سے بطورِ دین ، عبادت و ثواب مخصوص کرکے منانا اہلِ اسلام کا طریقہ ہی نہیں رہا اور ہمارے اسلاف صحابہ، تابعین و اتباعِ تابعین رضی اللہ عنھم کہ جن کے دور و زمانہ کو رسول اللہﷺ نے سب سے بہترین دور و زمانہ قرار دیا وہ بھی ہمیشہ ہی اس سے بری، دور اور لاتعلق ہی رہے
کیونکہ یہ طریقہ ہی مستعار ہے نصاریٰ، غیر مسلموں اور اغیار سے۔۔۔ یہ اُن کا طریقہ ہے کرسمس، برتھ ڈے، اینیورسری، ویلنٹائن، ہیلووین، فادر، مدر، ٹیچر ڈے وغیرہ۔۔۔ الخ
ہم اہلِ اسلام صحیح معنوں میں اگر دِنوں کو منانے پر آئیں تو سال کے کم ہی ایسے دن بچیں گے جنہیں منانے کی کوئی خاص معقول وجہ ہمیں نہ مل سکے۔۔۔
صرف عہد نبوی ﷺ میں “مدنی زندگی اور دیگر چند اہم واقعات” ہی کے “مخصوص ایام” لے لیجیے، جیسے:
رسول اللہﷺ کی مدینہ آمد کا دن،
مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر کا پہلا دن و اختتام کا دن،
رسول اللہﷺ کا پہلا جمعہ
رسول اللہﷺ کا پہلا درس
رسول اللہﷺ کا پہلا خطبہ نکاح
رسول اللہﷺ کا پہلا نکاح، پھر باقی نکاح
رسول اللہﷺ کی ہر ہر اولادِ باسعادت کے ایامِ ولادت،
ہر نواسہ کی ولادتِ باسعادت،
ازواجِ مطہرات کے ایامِ ولادتِ باسعادت،
پھر ہر اہلِ بیتِ اطہار کے ایامِ ولادتِ باسعادت،
پھر ہر صحابی یا کم از کم ہر بڑے صحابی کی ولادتِ باسعادت،
اور سب سے بڑھ کر ہر ہر نبی کا یا کم از کم معروف انبیاء و رسل علیہم السلام کے ایامِ ولادتِ باسعادت،
(کیونکہ ہمارے لیے تو تمام انبیاء و رسل علیہم السلام ہی قابلِ تعظیم ہیں ناں؟ کہ نہیں؟؟)
پھر ان تمام مذکورہ شخصیات کے “انتقال کے ایام” لے لیجیے جیسے: عرس، برسیاں، تیرھویاں اور چالیسویں وغیرہ ۔۔۔
پھر “غزوات کے چند دن” لے لیجیے کہ ان کے ذریعہ تو اسلام کو فتح و عروج نصیب ہوا:
” یومِ بدر ” کہ جسے خود قرآن مجید میں معرکہ حق و باطل کہا گیا،
پھر احد، احزاب و خندق، بیعت ِرضوان، صلح حدیبیہ، حنین و تبوک، فتح مکہ۔۔۔ الخ
پھر “اسراء و معراج” کا دن،
ہر ہر معجزہ رسول ﷺ کا دن، (کہ جس کے سامنے عقلِ انسانی اور آج کی ایڈوانس سائنس بھی دنگ ہے)
پھر قرآن کریم کے نزول سے متعلقہ ایام، ہر سورت کی پہلی نازل ہونے والی آیت کا دن وغیرہ،
“ھجرتِ مدینہ” کا دن،
پھر “اسلامی تاریخ کے اہم واقعات” کے دن،
“اہم فتوحاتِ اسلامیہ” کے دن،
“اہم شخصیات” کے دن،
” کیونکہ مذکورہ تمام کے تمام ایام منانے کی “توجیہات و تعلیلات” تو “مشترکہ” ہی ہیں ناں جس سے کوئی بھی ذی عقل انکار نہیں کرسکتا”.
حضرات و خواتین!
یہ کبھی نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔۔۔
کہاں تک جائیں گے؟؟؟ اور کیسے جائیں گے؟؟؟
یا بعض ایام کو اختیار کرنے اور بعض کو ترک کرنے کا امتیازی ضابطہ کیا ہوگا؟؟؟
اللہ اکبر!
اسی لیے اسی لیے ہم قربان جائیں حکمتِ الٰہیہ پر اور دینِ اسلام کی سیاحت و اعجاز پر کہ اس نے مخصوص دِنوں کو منانا بھی خود مخصوص کردیا۔۔۔
یا تو خود رب العزت والجلال نے یا پھر اس نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کے ذریعہ “چند ایام” کو “منانے کے طور پر مخصوص” فرمادیا، جیسے:
عیدین، جمعہ، ایامِ رمضان، ایامِ ذوالحج، حج کے ایام، عاشوراء و عرفہ نیز ہر پیر و جمعرات کا دن ، ہر مہینے کے ایامِ بیض وغیرہ، نکاح و شادی کا دن، انتقال پر ملال کادن، وغیرہ وغیرہ کہ ان سب ایام کا ایک الگ امتیاز بتایا، اعمال بتائے اور سکھائے نیز ان کے تفصیلی احکامات بھی بتائے۔۔۔ کہ “جس بھی دن کو کسی طور مخصوص کیا تو اس دن سے متعلقہ طریقہ کار بھ از خود متعین فرمادیا”۔
اور یہی معنی ہے کہ “دین مکمل کردیا گیا”.
لیکن اللہ و رسول ﷺ نے مخصوص دِنوں کو منانے کے لیے مقرر کرنے کا اختیار اپنے علاوہ کسی بھی اور عام یا خاص لوگوں پر نہیں چھوڑا کہ
” اگر عام و خاص پر چھوڑ دیا جاتا تو وہ بس دن ہی مناتے رہتے اور اسی پر بغلیں بجا بجا کر اپنے ایمان اور محبت و عشق کا ثبوت دیتے پھرتے”.
لہذا دین ہے بس “محمدرسول اللہﷺ کی اطاعت و پیروی” کا نام بس اور کچھ بھی نہیں۔۔۔
نیز اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی باتوں یعنی فرامین کو سمجھنے کے لیے بھی ہمیں آزاد نہیں چھوڑا بلکہ “اصحابِ محمد رضوان اللہ علیہم اجمعین” کی “تفسیر، تشریح و تعبیر اور عمل” کا پابند بنایا گیا کہ جسے انہوں نے نے سمجھا و سمجھایا وہ دین ہے اور جسے انہوں نے نہ دین سمجھا نہ سمجھایا وہ اللہ و رسولﷺ کا دین نہیں۔
ورنہ تو عربی کے الفاظ و جملوں کی من چاہی تعبیر و تاویل کرنا کسی سے بھی بعید نہیں۔۔۔ جیساکہ آج ہورہا ہے۔۔ واللہ المستعان
جو نبی نے فرمایا، کیا اور سکھایا اور صحاباء نے سمجھا اور عمل کیا وہ دین ہے چاہے پوری دنیا ہی اسے کیوں نہ چھوڑ دے ،
اور جو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے منع فرمادیا یا اسے بطورِ عبادت و ثواب بجالانے کا نہیں فرمایا، نہیں کیا، نہیں بتایا، نہیں سکھایا اور صحابہ نے بھی وہ نہیں سمجھا نہ ہی کیا۔۔۔ ان سب سے “رک جانے” ہی کا نام دین ہے چاہیے پھر پوری دنیا ہی کیوں نہ اسے کرنے لگ جائے۔۔۔!!!
سمجھنے کے لیے یہ بہت ہے اور کافی و شافی ہے۔
نسأل الله التوفيق والسداد و ما فيه خير للعباد و البلاد.

✍ حماد چاؤلہ حفظہ اللہ

یہ بھی پڑھیں:خود کشی کے اسباب اور تدارک کے لیے مفید لٹریچر