عمر 78 برس تھی اور آج بھی قید و قفس میں تھے تو بعد از قرآن روئے زمین پر امت کے ہاں متفقہ صحیح ترین کتاب”بخاری شریف ” کی شرح قلم بند فرما رہے تھے کہ زندان کے ساتھیوں کا پیغام آیا،تھوڑی دیر ہمارےپاس تشریف لائیے ، چند لحظے ہمیں عطا کیجیے۔ پیغام پاتے ہی قلم کاغذ وہیں چھوڑا اور چل دئیے۔
کہا گیا کہ ہمیں کوئی نصیحت فرمائیں، جیسا کہ انہیں اکثر مجالسِ و محافل میں زمانے سے یہ درخواست کی جاتی تھی اور پھر آپ نے ان سب کو دین سے جڑے رہنے اور استقامت کی نصیحت کی۔پھر دعا کا کہا گیا تو اللہ کے حضور ہاتھ اٹھا دئیے….. پانچ بار زبان سے یہ الفاظ نکلے۔۔۔۔
اے اللہ! مجھے اور میرے سارے گناہوں کو معاف کر دینا۔۔۔۔۔ دعا مکمل ہوئی تو کرسی سے اٹھتے پاؤں لڑکھڑائے تو نیچے بیٹھے اور لیٹ گئے،ساتھ ہی لا الہ الا اللہ پڑھا اور پھر امام ابن تیمیہ کی یاد روشن کرتے طویل ساڑھے 16 سال کی قید کاٹتے بھی دین کی خدمت بذریعہ خامہ و قرطاس انجام دیتے وہیں رب سے جا ملے ۔۔۔۔۔۔۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
یہ تھے حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی رحمہ اللہ،جن کا رب کے پاس جانے کا سفر یوں مکمل ہوا کہ کسی کو وہم و گماں تک نہ تھا کہ یوں اٹھیں گے اور یوں چل دیں گے۔۔۔۔
کوئی یہ بھی نہ کہہ سکا کہ
آئے ہو ابھی بیٹھو تو سہی
جانے کی باتیں جانے دو
میں نے انہیں 1994 میں مرکز طیبہ میں ہی پہلی بار دیکھا اور سنا تھا اور وہ پہلی سماعت و نظر ایسی بھائی اور قلب و جگر میں یوں سمائی کہ پھر ہمیشہ یہی آرزو وحسرت رہی، وہ بولتے رہیں ،ہم سنتے رہیں،وہ بیٹھے رہیں ہم دیکھتے ہی رہیں ۔۔۔۔۔۔
بے مثال دھیما لیکن کمال زور دار انداز بیاں ۔۔۔۔۔ اور جو بولتے بلکہ جو لکھتے اس کا ایسا حق ادا کرتے کہ کوئی نکتہ اعتراض نہ اٹھا پاتا، بذلہ سنجی و لطافت و شگفتگی اور حاضر جوابی کا ایسا شاہکار کہ کوئی چاہ کر بھی توجہ ہٹا نہ پاتا۔۔۔۔۔۔۔
بچپن سے ہی قرآن کے حافظ تھے اور ایسے حافظ کہ جس قرآنی نسخے سے حفظ کیا،اس پر غلطی کا کوئی نشان نہ دیکھا گیا کہ ان کی کبھی کوئی غلطی آتی ہی نہ تھی، آخر دم تک روزانہ قرآن کے کئی پاروں کا دور معمول رکھا۔ ایک زمانہ نماز تراویح کی امامت کی اور جب تک آزاد رہے،نماز فجر سے عشا تک کوشش کرکے خود ہی امامت فرماتے۔عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ کئی دہائیوں میں ہم نے انہیں کبھی نماز فجر میں غیر حاضر یا تاخیر کا شکار نہیں پایا الا یہ کہ وہ بوجوہ سفر یا امور دیگر موجود ہی نہ ہوں۔
حال ہی میں آنکھوں کا آپریشن ہوا لیکن پھر بھی اگلے ہی روز 9 پارے تلاوت فرمائی۔
یہی نہیں،دوران قید بھی اسیر ساتھیوں کی امامت خود فرماتے اور انہیں بھی روزانہ حدیث کا درس دیتے۔
قرآن کو انتہائی شوق اور سادگی لیکن پورے قواعد و ضوابط کے ساتھ تلاوت فرماتے تو اس میں ڈوب کر اسے پڑھنا ان کا خاصا تھا اور یہ سادگی تو ان کے حیات فانی کے ہر پہلو پر نمایاں تھی۔ تصنع اور ہٹو بچو سے بالکل ماروا بلکہ کوسوں دور، ہمیشہ عام اور سادہ ترین لباس زیب تن فرمایا، کبھی کاٹن کلف اور تکلف والے کپڑے یا چمڑے کا چمکتا دمکتا جوتا انہیں کبھی کسی نے پہنے نہیں دیکھا کہ یہ تکلفات ان کی زندگی میں دور دور تک بلکہ سرے شامل ہی نہ تھے۔ پلاسٹک کے عام سادہ ترین جوتے پہنتے اور سردیوں میں پلاسٹک کے ہی بوٹ ، پورے مرکز طیبہ میں ان پلاسٹک کے جوتوں کو ان کی نسبت سے ان کے شاگرد و دیگر باسیان ان کی محبت و تفنن میں “بھٹوی شوز” کے نام سے پکارتے تھے۔ کھانے پینے میں اس قدر سادہ کہ عام سے سالن کے شوربے وغیرہ کے ساتھ صرف ایک روٹی تناول فرماتے اور یوں آخر دم تک کبھی جسم کو معمولی بھاری نہیں ہونے دیا۔وہ یہی کہتے کہ کم اور سادا کھا کر میں بہت سکھی اور سکون میں ہوں۔
اپنے نام کے ساتھ کوئی القاب یا تعریف کے الفاظ لکھوانا یا بولنا انہیں سخت ناپسند تھا اور اس پر باقاعدہ ہدایت و سرزنش کرتے کہ جو میرا اصل نام ہے وہی لکھا بولا جائے جو کچھ میرے نام کا حصہ ہی نہیں ،اسے لکھنے بولنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
جس کی بات سننا پوری توجہ اور محبت سے سننا اور کبھی یہ تاثر نہ دینا کہ میں تھکا ہوا ہوں، پھر دوبارہ آجانا اور جو جواب مکمل و تشفی بںھر دینا ان کی عادت کمال تھی ، سوال خواہ کسی بھی نوعیت کے ہوں،دو جملوں میں ایسا جواب عطا کرتے کہ سننے والا جیسے ہمیشہ کے لیے مطمئن ہو جاتا۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں کتنے ہی علوم و فنوم سے نواز رکھا تھا، خامہ سرائی یا خطابت ہی نہیں بلکہ وہ خطاطی و کتابت اور شعر و سخن کے بھی بادشاہ تھے ، عربی کے ساتھ فارسی بھی خوب جانتے تھے۔خود ہی شعر نہیں کہتے تھے بلکہ انہیں بے شمار اشعار ازبر تھے اور جو شعر یا نثر ایک بار پڑھ لیتے،وہ انہیں پکی ٹھکی یاد ہو جاتی اور شاید ہی کبھی بھولتی ہو۔ مطالعہ کی رفتار اور اس پر فکری نظر اور پکڑ بھی بہت گہری تھی ، چند منٹوں میں بہت کچھ پڑھ کر باریک غلطیاں بھی نکال کر سامنے رکھ دیتے اور کوئی اس پر جواب الجواب نہ دے پاتا۔۔۔۔۔۔
اس پر مستزاد حوصلہ کمال کہ ایک بار ایک اہم کتاب تفسیر سورہ یوسف کا انہوں نے مطالعہ کیا، غلطیاں لگائیں،تصحیح کی لیکن جب وہ چھپ کر سامنے آئی تو اس میں ان کی کوشش کاوش کہیں شامل نہ تھی اور پرانا غلطیوں والا نسخہ ہی چھپا پڑا تھا ، انہوں نے جب ذمہ دار سے پوچھا تو وہ بولا کہ آپ نے جو کام کرکے دیا،وہ نسخہ مجھ سے گم ہو گیا، میں نے ڈر اور جھجک کی وجہ سے بات ہی نہیں کی،تو وہ بولے پھر کیا ہوا؟ مجھے بتاتے اور میں دوبارہ کام کرکے دے دیتا ،کم ازم کم یہ جو غلط چھپ رہا ،یہ تو نہ چھپتا ۔۔۔۔۔۔ میں ان کی زبان سے یہ سب سن کر حیران رہ گیا،ہم بھی چھوٹے موٹے لکھنے والے، اگر ایک لکھی سطر دوبارہ لکھنی پڑجائے تو ہم دل کو ہزار تسلیاں دے کر بھی نہیں لکھ پاتے اور ان کا ظرف ہمالیہ سے بڑھ کر دیکھ لیا اور بہت کچھ سیکھ لیا ۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے دعاؤں کی عالمی شہرتِ یافتہ کتاب حصن المسلم جو یقینی طور پر کروڑوں کی تعداد میں چھپ چکی ہے،کا سب سے پہلے اردو ترجمہ بھی کیا اور اس کے بعد اور بھی بہت کچھ لکھتے ہی چلے گئے۔
قرآن کریم کا ایسا ترجمہ کیا کہ پہلی بار کسی ایک حرف کا ترجمہ بھی  رہنے نہ دیا اور اسے ایسا ناپ تول کر قلم بند کیا کہ کوئی حرف آگے پیچھے کرنا ممکن نظر نہیں آتا اور وہ ترجمہ قرآن ایسا شاہکار رہا کہ آپ پڑھتے جائیں نہ تکان ہو گی نہ رکاوٹ محسوس ہو گی بلکہ لگے گا کہ شاید آپ تشریح بھی ساتھ ہی پڑھ رہے ہیں اور سب کچھ بلا تردد و رکاوٹ سمجھ آتا دل میں اترتا جارہا ہے، تفسیر قرآن لکھی تو جید و نامور اہل علم کہہ اٹھے کہ اس سے بہتر قرآنی اردو تفسیر اس سے پہلے شاید لکھی نہیں جا سکی اور اب تک کا تو جیسے حق ہی ادا ہو گیا ہے۔اب ایسا ہی حق بخاری شریف کا ادا فرما رہے تھے اور آخری مراحل میں تھے کہ اجل نے آ لیا۔
کوئی ان کی کسی تحریر پر کوئی اضافہ کرتا تو وہ اسے فوری روک دیتے کہ یہ تو میں نے لکھا اور بولا ہی نہیں تو آپ نے میرے نام کیسے کر دیا۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ ان کا ایک بیان حالات و سیاست کی مناسبت سے بطورِ ترجمان میڈیا کو جاری کر دیا گیا، اگلے دن اخبار میں وہ بیان پڑھ کر ان کا ترجمان کو فون آ گیا کہ یہ سب میرے نام سے کہاں سے آیا جو میں نے کہا بولا ہی نہیں ، انہیں بتایا گیا کہ بطور ترجمان یہ سب جماعتوں کا طریقہ کار ہوتا ہے تو وہ بولے کہ میری وہی بات آنی چاہئے جو میں خود کہوں،ورنہ نہیں۔
آپ نے دن بھر کی مصروفیات میں شام کے لمحات فن حکمت کے لیے مخصوص کر رکھے اور طب و حکمت کے اتنے ماہر تھے کہ جسے دوا دی اس نے انہیں ہمیشہ دعا دی کہ آپ جیسا علاج کوئی نہیں کرسکا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جیسے امراضِ جسمانی کا بھی خاص” دست مسیحا” عطا فرمایا تھا اور یہی ان کا بڑا کسب معاش تھا لیکن معاوضہ برائے نام لیتے بلکہ چلتے پھرتے مفت نسخے علاج بتاتے رہتے اور جسے محتاج پاتے خود سے دوا بھی عنایت کردیتے۔ دوا کے ساتھ اپنے کلام و زبان سے ہی مریض کا شافی علاج فرما دیتے۔
ساری زندگی کبھی لاہور یا کسی دوسرے بڑے شہر میں کوئی بڑا چھوٹا گھر بنانا بلکہ سوچنا تو کجا جہاں ساری زندگی دشت و بیاباں کے جنگل کو منگل کرتے گزاری وہاں بھی عام سادا سا ہی بسیرا بنایا کہ فرماتے یہ تو ہمارا اصل ٹھکانا ہے ہی نہیں، کیوں اس پر اتنی جان لڑائیں،کمائی وقت صلاحیت ضائع کریں، کتنی بار ایسے مواقع آئے،جب کہا گیا کہ یہ گھر والی جگہ خالی کر دیں کہ اب دشمن عظیم کی طرف سے جان و موت کا خطرہ ہے، آس پاس بلکہ وہاں کے سب مکین وہ جگہ خالی کردیتے لیکن آپ کہتے کہ جس نے جانا ہے،چلا جائے ، میں تو یہیں یوں ، جب مرنا ہوا تو مر جائیں گے جس نے جو کرناہے کر لے،اور پھر وہیں جان جان آفریں کو سپرد کرکے ہمیشہ کے لیے اسی زمین میں جا بسے۔
مجھے یاد ہے کہ ان کی شبانہ روز دینی مصروفیات دیکھ کر امیر جماعت نے انہیں گاڑی دینے کی خوشخبری دی کہ ہم آپ کی سواری کا انتظام کر رہے ہیں۔ وہ بولے، گاڑی تو آپ دے دیں گے، لیکن میں اس کا پٹرول ڈرائیور دیگر خرچہ کہاں سے لاؤں گا؟ میں تو وہ بھر نہیں سکتا۔اس لئے رہنے ہی دیں۔ سبحان اللہ
اطاعت امیر میں اس قدر پختہ کہ جب جو جہاں ذمہ داری لگی کام ملا،بلاچوں چراں اس پر کھڑے ہو گئے۔
ایک بار راولپنڈی میٹنگ پر مدعو تھے ، پہنچ کر اطلاع دی کہ میں آ گیا ہوں، اب کہاں آنا ہے؟ جواب ملا،ڈرائیور سے بات کروائیں ، ہم راستہ بتاتے ہیں۔ کہنے لگے، میرے ساتھ ڈرائیور گاڑی کوئی نہیں،میرے پاس وقت کافی تھا، اس لئے بس پر ہی بیٹھ کر آگیا ہوں ۔۔۔
ایک مرتبہ ان کے محافظ ساتھی نے راستے میں گاڑی روک کر کینو خرید لیے کہ سفر لمبا ہے، کچھ لذت کام و دہن ہی سہی،اسے کہنے لگے کہ شکریہ کہ ضیافت کی ہے،وہ حیران ہوا کہ یہ تو گاڑی کے خرچے سے ہیں، تو وہ گویا ہوئے کہ میں تو کھانا کھا کر آیا ہوں،مجھے تو اس کی ضرورت ہی نہیں اور جہاں جا رہے ہیں وہاں بھی کھانا مل جانا ہے اور اگر آپ اپنی طرف سے کھلا رہے ہیں تو ٹھیک ورنہ ایسی کوئی خریداری میں کہوں تو کریں ورنہ کوئی ضرورت نہیں اور پھر ان کے ساتھ والے ڈرائیور اور باڈی گارڈ سمجھ گئے کہ یہاں کام ایسے ہی چلے گا،جہاں رکنا اور جہاں چلنا ہے کھانا پینا وہیں ہوگا اور کوئی معمولی فضول خرچی کا یہاں سوچنا بھی محال ہے۔
جو بھی مہمان آتا،اسے پوری محبت پوری توجہ اور پورا وقت عطا کرتے اور اپنے ہاتھوں سے اس کی خدمت کرکے خوش ہوتے کہ یہ تو اجر و اعزاز کی بات ہے۔
حق بات بغیر لگی لپٹی اور خوف و تردد کے کہہ دینا ان کا ہی خاصہ تھا،ہماری زندگی میں”میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند ” کسی پر فٹ اور راسخ آتا ہے تو یقیناً وہ آپ ہی تھے۔
گہرے دینی مطالعہ کے ساتھ روزانہ ایک ہی اخبار نوائے وقت کا لازمی مطالعہ کرتے اور تھوڑی ہی دیر میں ساری ضروری خبریں اور تجزیے تبصرے کالم وغیرہ پڑھ کر سب حالات سے باخبر ہو جاتے اور پھر ملکی و عالمی سیاست معیشت معاشرت سمیت پر پہلو پر ایسا تبصرہ کرتے اور رائے دیتے کہ لگتا جیسے یہ ان سب میدانوں کے ہی سپیشلسٹ ہیں اور آپ سے کوئی جوابی بحث و تمحیص تک نہ کر پاتا۔
تحریک آزادی کشمیر اور دفاع و استحکام وطن میں ان کا عظیم کردار تاریخ میں روش چراغ کی طرح جگمگاتا رہے گا کہ کیسے سارے پاکستان دشمن عالمی گماشتے تک ان کے نام کے تعاقب میں آخر دم تک سرگرم و سرگرداں رہے۔
مجھے یاد ہے کوئی چار سال قبل جب ہمارے حلقہ احباب کی ایک سب سے بڑی گرفتاری ہوئی تو ہم سب پریشان تھے، اس پر جمع ہوئے،میں ملا تو پوچھنے لگے، کیا حال ہے؟ میں نے حسب حالات کچھ پریشانی کا اظہار سا کیا ، تو فوری بولے ، آپ نے بہت غلط بات کی ہے ، جب کہہ دیا کہ رضیت باللہ ربا و بالاسلام دینا و بمحمد نبیا تو پھر ایسی ناراضی پریشانی تکلیف کے اظہار کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، آپ یہ الفاظ کچھ مت دوبارہ بولیں۔
دین سے محبت اتنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی کہ خود بھی نامور عالم دین کے لخت جگر تھے تو اللہ نے انہیں جو اولاد نرینہ چار بیٹے عطا کئے، سب کو حافظ قرآن اور دین کا ہی سپاہی و نگہبان بنایا اور ساری اولاد آج ان کے کے لئے دین کے راستے پر صدقہ جاریہ بن چکی ہے۔
لوگوں کے ذاتی مسئلے جھگڑے حل کرنے اور حوصلے سے سن کر فریقین کو راضی کرنے کا ملکہ بھی ان کو اللہ نے عطا کر رکھا تھا، کئی مرتبہ کئی احباب نے کہا کہ ہمارا فلاں جگہ رشتہ نہیں ہو پا رہا ، آپ تعاون کریں تو وہ نہ صرف فریقین کو قائل کرتے بلکہ کئی بار تو موقع پر نکاح پڑھابلکہ وہیں رخصتی تک کروا کر اٹھے اور سب کو حیران کر دیا۔
ان کی خبر وفات حسرت آیات پھیلتے ہی ملک و بیرون ملک لاکھوں دل حزن و ملال کے بحر بیکراں میں جیسے ڈوب گئے کہ یوں اتنی جلدی ایسے چل دیئے کہ خبر تک نہ ہونے دی، دل کے عارضے اور دیگر امراض کا بھی شکار ہوئے لیکن کبھی کسی بیماری کو خود پر حاوی نہ ہونے دیا نہ کبھی کسی کو احساس ہونے دیا نہ اپنی طبیعت سے اس کا اظہار ہونے دیا ۔ حال پوچھنے پر ہمیشہ کی طرح ہلکا سا مسکرا کر الحمد للہ کہتے اور کبھی اپنی کسی جسمانی تکلیف کا ذکر ہی نہ کرتے کہ وہ ان پر غالب ہی نہ آ جائے۔ داڑھی اور بالوں کو تاکید رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر رنگ کر رکھتے اور ہشاش بشاش دکھتے دکھاتے ہی چل دئیے۔۔۔۔۔
بے شمار دلوں میں ان کی محبت یوں جاگزیں تھی کہ انہیں سفر آخرت پر الوداع کرنے بھی ایک جہاں امڈ آیا اور گرم ترین موسم میں بھی بادلوں کے سائےاور ٹھنڈی ہوائیں چلتی رہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے جانے سے واقعی سارا شہر تو کیا ایک جہاں ویراں سا ہو گیا اور اب ہم ایسا کہاں سے لائیں کہ ان جیسا کہیں جسے۔۔۔۔
اب تو یہی دعائیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنتوں میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ہمیں بھی ایک بار پھر ان کے ساتھ جمع کر دے ۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین

علی عمران شاہین