سوال

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ حاجی جب عرفات پہنچتے ہیں تو اللہ تعالی انہیں اپنے حقوق معاف کردیتا ہے، اور جب مزدلفہ پہنچتے ہیں تو حقوق العباد بھی اپنے ذمے لے لیتا ہے؟ اس حدیث کے متعلق رہنمائی کریں۔ کیا حج کرنے سے واقعتا حقوق العباد معاف ہوجاتے ہیں؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اس حوالے سے درج ذیل حدیث مروی ہے:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ- سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَقُولُ: “إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى- تطوَّل عَلَى أَهْلِ عَرَفَاتٍ يُبَاهِي بِهِمُ الْمَلَائِكَةَ يَقُولُ: يَا مَلَائِكَتِي، انْظُرُوا إِلَى عِبَادِي شُعْثًا غُبْرًا أَقْبَلُوا يَضْرِبُونَ إليَّ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ، فَأُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَجَبْتُ دُعَاءَهُمْ، وَشَفَّعْتُ رَغْبَتَهُمْ، وَوَهَبْتُ مُسِيئَهُمْ لِمُحْسِنِهِمْ، وَأَعْطَيْتُ مُحْسِنَهُمْ جَمِيعَ مَا سَأَلُونِي غَيْرَ التَّبِعَاتِ الَّتِي بَيْنَهُمْ. فَلَمَّا أَفَاضَ الْقَوْمُ إِلَى جَمْعٍ وَوَقَفُوا وَعَادُوا فِي الرَّغْبَةِ وَالطَّلَبِ إِلَى اللَّهِ فَيَقُولُ: يَا مَلَائِكَتِي، عِبَادِي وَقَفُوا فَعَادُوا إِلَى الرَّغْبَةِ وَالطَّلَبِ فَأُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَجَبْتُ دُعَاءَهُمْ، وَوَهَبْتُ مُسِيئَهُمْ لِمُحْسِنِهِمْ، وَأَعْطَيْتُ مُحْسِنَهُمْ جَمِيعَ مَا سَأَلُونِي، وَكَفَلْتُ عَنْهُمُ التَّبِعَاتِ الَّتِي بَيْنَهُمْ”. [ مسند أحمد بن منيع كما في “إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري:3/ 214 برقم:2586والمطالب العالية لابن حجر:7/31 برقم:1248، مسند أبي يعلى برقم:4106 واللفظ له]

’ اللہ تعالی اہلِ عرفات کی طرف متوجہ ہوکر فرشتوں کے سامنے ان پر فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے: اے میرے فرشتو! دیکھو میرے پراگندہ حال بندوں کی طرف جو ہر طرف سے سفر کرتے ہوئے میرے سامنے حاضر ہوئے ہیں، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کی دعائیں قبول کرلیں، آرزوئیں بڑھا چڑھا کر پوری کردیں، اور نیک لوگوں کے سبب گناہ گاروں کو بھی بخش دیا، اور نیکوں کو وہ سب عطا کردیا، جو انہوں نے مانگا ہے، سوائے ان کے آپسی حقوق کے۔ پھر جب لوگ مزدلفہ آکر ٹھہرے اور مزید رغبت و شوق سے اللہ سے مانگنا شروع کیا، تو اللہ تعالی نے فرمایا: اے میرے فرشتو! میرے بندے پھر رک کر دوبارہ مجھ سے مانگنا شروع ہوگئے ہیں، لہذا میں پھر اعلان کرتا ہوں کہ میں نے ان کی دعائیں قبول کرلیں اور نیک لوگوں کے سبب گناہ گاروں کو بھی بخش دیا، اور نیکوں کو وہ سب عطا کردیا، جو انہوں نے مانگا ہے، اور ان کے مابین جو حقوق ہیں، ان کی ذمہ داری بھی اٹھالی‘۔
یہ روایت ضعیف ہے، اس کی سند میں صالح بن بشیر المری اور یزید بن أبان الرقاشی دونوں ضعیف ہیں، بلکہ اول الذکر کو تو امام بخاری وغیرہ بعض محدثین نے منکر الحدیث اور سخت ضعیف قرار دیا ہے۔ (تہذیب التہذیب:4/383، 11/311)
امام بوصیری اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

“وَمَدَارُ إِسَنَادَيْهِمَا عَلَى يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ، وَهُوَ ضَعُيفٌ”. [الإتحاف :3/ 214]

’اس کا مدار یزید الرقاشی پر ہے، جو کہ ضعیف ہے‘۔
علامہ ہیثمی لکھتے ہیں:

“وَفِيهِ صَالِحٌ الْمُرِّيُّ، وَهُوَ ضَعِيفٌ”. [مجمع الزوائد:3/ 257]

’ اس میں صالح المری ہے، جو کہ ضعیف ہے‘۔
اس حدیث کے دیگر متابعات و شواہد بھی ہیں، جن میں سے کئی ایک امام منذری رحمہ اللہ نے ’الترغیب والترہیب‘ (2/200)میں ” الوقوف بعرفة والمزدلفة” کے عنوان سے ذکر کیے ہیں، لیکن یا تو وہ محلِ شاہد سے خالی ہیں، یا پھر سخت ضعیف ہیں۔ملا علی قاری رحمہ اللہ اس سے متعلق مختلف روایات ذکر کرکے ان کی اسنادی حالت واضح کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

“وَإِذَا تَأَمَّلْتَ ذَلِكَ كُلَّهُ عَلِمْتَ أَنَّهُ لَيْسَ فِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ مَا يَصْلُحُ مُتَمَسَّكًا لِمَنْ زَعَمَ أَنَّ الْحَجَّ يُكَفِّرُ التَّبِعَاتِ؛ لِأَنَّ الْحَدِيثَ ضَعِيفٌ…”. [مرقاة المفاتيح:5/ 1806]

’مذکورہ بحث پر غور و فکر کرنے سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ان احادیث میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں جو اس قول کی دلیل بن سکے کہ حج حقوق العباد کو بھی معاف کردیتا ہے، کیونکہ یہ سب ضعیف ہیں…‘۔
پھر امام بیہقی کے حوالے سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

“فَلَا يَنْبَغِي لِمُسْلِمٍ أَنْ يَغُرَّ نَفْسَهُ بِأَنَّ الْحَجَّ يُكَفِّرُ التَّبِعَاتِ، فَإِنَّ الْمَعْصِيَةَ شُؤْمٌ، وَخِلَافُ الْجَبَّارِ فِي أَوَامِرِهِ، وَنَوَاهِيهِ عَظِيمٌ، وَأَحَدُنَا لَا يَصْبِرُ عَلَى حُمَّى يَوْمٍ، أَوْ وَجَعِ سَاعَةٍ، فَكَيْفَ يَصْبِرُ عَلَى عِقَابٍ شَدِيدٍ، وَعَذَابٍ أَلِيمٍ لَا يَعْلَمُ وَقْتَ نِهَايَتِهِ إِلَّا اللَّهُ؟”. [مرقاة المفاتيح:5/ 1806]

’کسی مسلمان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ خود کو اس دھوکے میں مبتلا رکھے کہ حج تمام حقوق کو معاف کردیتا ہے، کیونکہ معصیت بذات خود ایک نحوست ہے، اور صاحب جبروت اللہ رب العزت کی اوامر و نواہی میں مخالفت بہت خطرناک ہے، ہمارے لیے ایک دن کا بخار یا چند لمحوں کی تکلیف برداشت کرنا مشکل ہوجاتا ہے، تو اُس سخت عذاب و عقاب پر کیسے صبر کرسکے گا، جس کے ختم ہونے کا سوائے اللہ کے کسی کو کوئی علم نہیں!‘۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا حج کرنے سے نماز، زکاۃ وغیرہ چھوڑے گئے فرائض، اسی طرح حقوقِ والدین اور دیگر حقوق العباد میں تقصیر و کوتاہی کا ازالہ ہوجاتا ہے؟ آپ نے فرمایا:

“أجمعَ المسلمون أنه لا يَسقُط حقوقُ العباد كالدَّيْن ونحوِ ذلك، ولا يَسقُط ما وجب عليه من صلاةٍ وزكاةٍ وصيامٍ وحق المقتول عليه، وإن حجَّ، والصلاة التي يَجبُ عليه قضاؤُها: يَجبُ قضاؤُها، وإن حَج، وهذا كلُّه باتفاق العلماء”. [جامع المسائل:4/123]

’تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حج سے قرض، نماز، زکاۃ، روزہ اور قتل وغیرہ حقوق معاف نہیں ہوتے، جو چیز ذمے ہے، اسے ادا کرنا ضروری ہے‘۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ