بے حیا کون ہوتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح بخاری کی حدیث ہے:
“حضرت ربعي بن حراش، حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت نقل فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “لوگوں نے نبوی ہدایات میں سے جوحاصل کیا ہے، ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرتے پھرو!”
یعنی حیا سے عاری شخص لبرل ہوتا ہے۔۔۔!!!
یہاں بے حیائی کا مطلب محض فحاشی نہیں ہے۔ اس کا وسیع تر مفہوم یہ ہے کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس بات کی کوئی پرواہ نہ کرنا کہ اللہ کا حکم اس بارے میں کیا ہے۔ کیا یہ کام جائز بھی ہے یا نہیں۔
کمرے میں کوئی بزرگ موجود ہو تو نوجوان اور بچے ان کی حیا کی وجہ سے لغو باتوں اور حرکتوں سے باز رہتے ہیں۔ اگر وہ ان کے احترام میں ایسا نہ کریں اور بے ہودہ مذاق جاری رکھیں تو ان کے بے حیا ہونے میں کیا شک ہے۔
ایسے ہی کوئی شخص اللہ کو ہر جگہ حاضر ناظر ماننے کے باوجود اس کی حیا کا پاس نہ کرے اور جو جی میں آئے اسے (جائز سمجھ کر) کر گزرے تو ایسا شخص لبرل کہلاتا ہے۔ اور وہ اسے شخصی آزادی کا نام دیتا ہے۔
(بشری کمزوری کے تحت گناہ کو گناہ سمجھ کر کرنا اور بات ہے۔ اور اس سے تو سوائے انبیاء کے کوئی بھی پاک نہیں۔ البتہ گناہ کو جائز سمجھ کر کرنا کھلی بغاوت اور کفر ہے)

لبرلزم خواہشات اور شہوات کو برائے نام آزادی پروموٹ کرتا ہے جبکہ ایک خاندان،معاشرہ اور مذھب ان خواہشات کی بتدریج قربانی کو مانگتا ہے اور اسکا مطالبہ کئیے بنا چل ہی نہیں سکتا جس سے لبرلز بھاگتے ہیں اور ایسے قوانین بنانے پر مجبور ہوتے ہیں، آپ دیکھیں لبرلز خاندانی نظام، معاشرے کے فلاح و خیر پر مبنی قوانین اور مذھب کی اخلاقیات سے بیزار ہیں اور انکی یہ بیزاری انکو مزید متعصب بنانے میں سب سے بڑا موجب ہے، حالانکہ یہ چیزیں تو انسانیت اور نیچریت کے دعوے کرنے والے پھر تمام مذاہب بھی مانتے تھے جن golden rolls کا لبرلز انکار کرتے ہیں، چہ جائیکہ ان سے مذھبی عقائد کے متعلق خیر مقدم کی امید لگائی جاسکے۔

مزید پڑھیں: ہم جنس پرستی کی حمایت کی قیمت پر فلسطینیوں کی حمایت قبول نہیں

باہمی رضامندی سے زنا، بے پردگی، بغیر کسی طبی وجہ کے جنس کی تبدیلی، ہم جنس پرستی، جوا، شراب نوشی، رقص و موسیقی، یہ سب نفسانی خواہشات لبرل ازم کے تحت سو فیصد جائز ہیں۔ دنیا کی کوئی لبرل ریاست ان پر سزا کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔

الغرض بے حیائی کے وسیع تر مفہوم کے مطابق موجودہ دور میں ایک بے حیا شخص کو “لبرل” کہتے ہیں۔

رضوان اسد خان