سوال

حضرات ِعلمائے کرام کیا ارشاد فرماتے ہیں، قرآن و سنت کی روشنی میں، کہ میں  دس مرلہ مکان کا مالک ہوں،اور شادی شدہ ہوں۔البتہ میری اپنی کوئی اولاد،ا ور ماں باپ  اور بہن بھائی نہیں ہیں۔کچھ عرصہ قبل جب  میں شدید بیمار ہوا تو موت و زندگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ مکان کی آدھی ملکیت  بیوی کے نام کردی جائے۔چنانچہ ہم  زوجین میں باہمی مشورے کے بعد مکان کی سات مرلہ ملکیت بیوی کے نام کردی گئی۔مگر معاملات اسی طرح شوہر کے اختیار میں رہے۔ جیسا کہ اس سے قبل چل رہے تھے۔اور اس سلسلے میں بیوی نے بھی کسی قسم کا نہ تو کوئی اعتراض کیا اور نہ ہی سوال اٹھایا۔معاملات احسن طریقے سے چل رہے تھے۔

اس دوران اللہ تعالی نے مجھے صحت یابی عطا فرمائی، لیکن مکان نام کرنے کے تقریبا تین سال کے بعد میری بیگم کینسر کا شکار ہو کر شدید بیمار ہوگئیں۔ اور تین سال بیماری کی حالت میں گزارنے کے بعد انتقال فرما گئیں۔بیماری کی شدت کے دوران جب کہ وہ اپنی زندگی سے بالکل مایوس ہو گئیں۔ تو انہوں نے بھی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے میری طرح فیصلہ کیا کہ مکان کی ملکیت واپس میرے نام ،اور ہماری ایک لے پالک بچی (جس کو ہم نے لے کر پالا تھا اس کے بھی کسی وارث کا کوئی پتہ نہیں) کے نام برابر کر دی جائے۔ جس کا ذکر گاہے بگاہے انہوں نے مختلف میل جول کے افراد سے بھی کیا۔ مزید برآں متعدد دفعہ میرے خراب کاروباری حالات کو دیکھتے ہوئے بھی وہ باربار اصرار کرتی رہیں، کہ آپ مکان کی ملکیت واپس لے کر اس کو اپنی کاروباری ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے، استعمال یا فروخت کر لیں۔لیکن پیسوں کی قلت، اور حالات کے سبب، اس کام میں تاخیر ہوتی رہی، اور مختصر یہ کہ  واپسی ملکیت مکان کے قانونی تقاضے پورے کرنے سے قبل ہی  میری بیوی کا انتقال ہوگیا۔

یہ مکان میری ذاتی محنت اور کمائی سے بنایا ہوا ہے۔ اس میں نہ تو کوئی وراثت کا حصہ ہے، اور نہ ہی کسی اور کا حق وسرمایہ۔ اب جبکہ میری بیوی کا انتقال ہوگیا ہے تو میری بیوی کی بہن ان کے حصے کی دعویدار بن رہی ہیں۔اس سلسلے میں میری بیوی کی وصیت ہماری لے پالک بیٹی سے متعلق تھی ،اس سے اور بیٹی کی شادی کےلیےہم نے تقریبا جو 35 تولے سونا بطور امانتا ان کے پاس رکھا  ہوا تھا اس سے بھی منکر ہیں اور اس کو (لے پالک بیٹی )کو کسی قسم کا سونا یا حصہ دینے کو تیار نہیں بلکہ ہر چیز کی وراثت کی خود دعویدار ہیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اگر سوال میں ذکر کردہ تمام معلومات درست ہیں، تو  مذکورہ جائیداد میں آپ کی بیوی کی بہن کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اور جو چیزیں آپ لوگوں نے ان کے پاس بطور امانت رکھوائی ہوئی تھیں، انہیں  واپس نہ  کرنا بھی ظلم ہے۔ اس قسم کی بے ضابطگیاں اور بد عنوانیاں معاشرے میں عام ہیں، حالانکہ کسی کا مال ناحق ہتھیانا،  یہ بڑا  گناہ اور سنگین جرم ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

” إنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم ألحن بحجته من بعض، فمن قضيت له بحق أخيه شيئا بقوله، فإنما أقطع له قطعة من النار، فلا ياخذها”. [بخاري:2680، مسلم:4473]

”تم لوگ میرے  پاس ،اپنے مقدمات لاتے ہو ،اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص، دوسرے سے بات کرنے میں بڑھ کر ہوتا ہے،لہذا  اگر ظاہر کا خیال رکھتے ہوئے،  میں کسی ایک کے مال کا دوسرے کے حق میں فیصلہ کردوں ، تو اسے نہیں لینا چاہیے، كيونكہ ایسی صورت میں، میں اس کے لیے دوزخ کے ایك ٹکڑے کا فیصلہ کر رہا ہو تا ہوں۔“

گویا دھوکا دہی سے اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی فیصلہ کروایا جائے، تو حرام حلال نہیں ہوگا، کجا یہ کہ ہم اپنی طرف سے خرد برد، اور اتار چڑھاؤ کرکے کسی کا مال نا حق ہتھیالیں، یا کسی کو کسی کا حق یا امانت واپس نہ کریں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ