سوال

مفتی صاحب! اگر کسی کا شوہر لا پتہ ہو جائے  اور کافی دن  گزر جانے کے باوجود خبر نہ ہو کہ زندہ بھی ہے یا نہیں؟  تو عورت کو کہیں اور نکاح کرنے کے لیے کتنا عرصہ انتظار کرنے کا حکم ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

ایسے شخص کی بیوی فیملی کورٹ میں اپنے خاوند کی گمشدگی کا مقدمہ دائر کرے، کورٹ اپنی مکمل تحقیق کرنے کے بعد شوہر کے لاپتہ ہونے کی ڈگری جاری کر دے تو اس تاریخ سے لے کر خاتون چار ماہ دس دن انتظار کرے گی۔ چار ماہ دس دن کے بعد اس کو اختیار ہے کہ وہ مزید انتظار کرنا چاہتی ہے تو انتظار کر لے اور اگر آگے کہیں نکاح کرنا چاہتی ہے تو نکاح کر لے۔

حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یہ ایک خاتون کا شوہر لاپتہ ہوگیا تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی، آپ نے اسے چار سال انتظار کا حکم دیا، چال سال بعد وہ دوبارہ آئی، آپ نے فرمایا: چار ماہ دس دن مزید انتظار کرو، اور اس کے بعد فرمایا:

“أين وليُّ هذا الرجل؟ فجاؤوا به، فقال: طلِّقها، ففعل، فقال عمر: تزوجي من شئت”.

’اس شخص  کا ولی کدھر ہے؟ ولی کو لایا گیا، اس سے خاتون کو طلاق دلوائی اور کہا کہ اب آپ جس سے چاہیں آگے نکاح کر سکتی ہیں‘۔

[مصنف عبد الرزاق 7/ 47، «بَابُ الَّتِي لَا تَعْلَمُ مَهْلِكَ زَوْجِهَا» وصححه  غير واحد. انظر الإرواء للألباني: 6/ 150 برقم:1709]

عدالت میں کیس دائر کیے بغیر خود بخود گھر بیٹھے ہی کچھ مدت گزرنے کے بعد فیصلہ کر لینا یہ درست نہیں ہوگا۔

جو شخص لاپتہ ہو جاتا ہے اس کو مفقود الخبر کہا جاتا ہے، اس کے متعلق تفصیلی احکامات کتب فقہ و فتاوی میں موجود ہیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ