“مالکیہ” کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور پر امریکہ میں دیکھ رکھا تھا، مگر مسجدوں کی مسجدیں مالکیہ کی ہوں، اس کا موقع ابھی “المغرب” کی سیر میں ملا۔
عبادات میں بہت سادگی، تقریباً حجاز کی طرح۔ اذان بس اذان ہوتی ہے، “اللہ اکبر” شروع میں چار بار کی بجائے صرف دو بار کہنے کے ساتھ۔ نہ اذان سے پہلے سپیکر سے کچھ “نشر” ہوتا ہے – جیسا کہ ہمارے اپنے ملک میں، نیز کچھ اور خطوں میں بھی، اور نہ اذان کے بعد کچھ، جیسا کہ بعض دیگر ملکوں میں چلتا ہے۔ بس اذان۔ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعاء کا فنامنا بھی وہاں کی کسی مسجد میں نہیں دیکھا۔ امام، سلام پھیرنے سے چند لمحات بعد، مقتدیوں کی طرف رخ کر کے، زیرِ لب، ما بعد نماز اذکار میں مگن ہو جاتا ہے۔ مقتدی بھی اچھی خاصی تعداد میں بغیر کوئی خاص آواز بلند کیے مصروفِ اذکار رہتے ہیں۔ بہت لوگ اٹھنے کی جلدی بھی کرتے ہیں۔ پسِ نماز اجتماعی دعاء کا فنامنا صرف وہاں کی “شاہی مسجد” (مسجد الحسن الثانی، الدار البیضاء) میں دیکھا، اور اس دعاء کا ایک حصہ نوجوان بادشاہ کی کامرانی و درازیِ عمر، اس کے دنیا سے جا چکے والدین کی بخشش، اور اس کے ولیِ عہد کی سلامتی و شادابی کےلیے مخصوص ہوتا ہے۔

عام مسجدوں میں پس نماز اجتماعی دعاء ہوتی البتہ میں نے نہیں دیکھی۔ سوائے خال خال لوگوں کے، عام نمازی قیام میں ہاتھ باندھتے ہیں، گو میرا خیال تھا مالکی ماحول میں ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے لوگ کثرت سے دیکھنے کو ملیں گے۔ مسجد کے باہر مانگنے والوں کا فنامنا اسی طرح ہے جس طرح ہمارے یہاں۔ پیچھے پڑ پڑ کر بھی مانگتے ہیں۔ اکثر مسجدیں اذان کے ساتھ کھلتی ہیں اور نماز کے کچھ دیر بعد “مقفل” کر دی جاتی ہیں۔ مغرب کے بعد، بعض مسجدوں میں قرآن کا دَور ہوتا بھی دیکھا۔ دَور کرنے میں، ان کا طریقہ ہمارے طریقے سے تھوڑا ہٹ کر تھا۔ ہمارے ہاں باری باری حافظ ایک دوسرے کو سناتے ہیں۔ وہاں دونوں اکٹھے ایک ہی سورت پڑھ رہے تھے؛ ایک اپنے حفظ سے اور دوسرا مصحف سے۔ دم ٹوٹنے کی وجہ سے جہاں کسی ایک کو تھوڑا رکنا پڑتا، اور اس کا ساتھی اس دوران اگلی آیت شروع کر چکا ہوتا، وہاں یہ آیت کا اتنا حصہ چھوڑ کر اُس کے ساتھ شروع ہو جاتا! شاید یہ دَور نہ ہو، مل کر تلاوت کرنے کا کوئی طریقہ ہو۔

مساجد میں نوجوانوں کی تعداد اچھی خاصی تھی۔ جُمعوں پر عورتوں کو بھی مساجد تک رسائی ملتی ہے۔ خواہش تھی، وہاں ایک جمعہ پڑھنے کا موقع ملے لیکن عین جمعرات کو فلائٹ تھی، سو یہ نہ ہو سکا۔ وہاں کے کچھ لوگوں سے سنا، جمعہ کو، خطبہ سے پہلے صلوٰۃ و سلام کی کچھ مجلس چلتی ہے۔ “مولد” کے متعلق بھی سنا، کہ اس کا بہت اہتمام ہوتا ہے۔ ماحول پر صوفیت غالب ہے۔ ’اپنے کام سے کام رکھنے‘ والے لائف سٹائل پر لوگوں کو کاربند رکھنے میں شاید اس سے کچھ کام بھی لیا جاتا ہے۔ بادشاہ سلامت خود بھی روحانیت کی کچھ سرگرمیاں منعقد فرماتے ہیں۔ مسجدوں کی تعمیر میں اعلیٰ ذوق کا مظاہرہ دیکھا۔ بھڑکیلی تزیین و آرائش کی بجائے رنگوں کا صُفیانہ مگر نہایت خوبصورت اور جاذب نظر انتخاب متاثر کن تھا، سرکاری مسجدیں تو اس حوالہ سے زیبائش کا مرقع تھیں، عام مسجدیں بھی سلیقے کا اعلىٰ اظہار تھیں۔ صفائی ستھرائی حیران کن۔

مزید پڑھیں: مالکیہ کے دیس میں(2)

کچھ “تحریکی حلقوں” کا بھی وہاں کے متعلق سن رکھا تھا، خصوصاً عبدالسلام یاسین کی جماعت۔ مگر عام لوگ کم ہی ان سے کوئی سروکار رکھتے دیکھے۔ اس حد تک بھی نہیں کہ بتا سکیں ان سے ملا کس طرح جا سکتا ہے۔ بلکہ ان کے متعلق پوچھنے والے سے بھی تھوڑا خوف محسوس کرتے ہیں۔ بادشاہ کےلیے اچھے جذبات اور خیالات ایک طرح سے ایمان کا حصہ ہیں۔ میرا خیال ہے، جس طرح ہمارے ’جمہوری‘ ملکوں میں وطن اور ریاست کے ساتھ ہر حال میں ایک وابستگی ذہنوں کے اندر کاشت کی جاتی، یہاں تک کہ مذہب سے بھی اس کی کچھ آبیاری کروائی جاتی ہے، ’ملوکیتی‘ ملکوں میں بادشاہ اور اس کے خاندان کےلیے بھی اس “قومی” سوچ یا نظریے میں ایک ایریا مختص ہوتا ہے۔ اور اصل چیز تو کسی ملک کا تعلیمی نصاب اور وہاں کی ابلاغیات ہیں؛ خواہ جس بھی چیز کو آپ حق بنا دیں۔ چنانچہ عام آدمی کو اپنے فرماں روا کے متعلق کچھ سننا، صرف قانونی گرفت کے خوف سے نہیں، بلکہ اپنے قومی دھرم پر آنچ آنے کے خدشے سے بھی، ناگوار ہوتا ہے۔ خصوصا اگر کوئی باہر کا آدمی اس کے ’قومی عقیدے‘ کا عدم احترام کر بیٹھے!

حامد کمال الدین