’اپنے کام سے کام‘ رکھنے والے دھرم کی ترویج اکثر عرب ملکوں میں بےحد ضروری خیال کی جاتی ہے۔ اور اس کی کوشش بھی میرا خیال ہے از بس ہوتی ہے۔ مگر ایک طبعی رکاوٹ اس میں پریشان کن حد تک حائل ہے: قرآن جب پڑھا جائے تو یہاں کے عام آدمی کو اچھا خاصا سمجھ آتا ہے، چاہے اس کی بول چال کی عربی کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو۔ ہمارے عجمی معاشروں کی طرح “ترجمہ” کی ضرورت ادھر بہرحال نہیں ہے۔ موٹا موٹا مفہوم قرآن کا بہرحال سمجھ آتا ہے۔ اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ قرآن کی “تلاوت” بھی موقوف ہو جائے! اس کا کچھ اندازہ مجھے قرآن کا دور کرنے والے نمازیوں کو دیکھ کر بھی ہوا، جس کے دوران چہروں کے تاثرات بتا رہے تھے کہ قرآن کے معانی کے ساتھ بھی ان کا ایک تفاعل interaction بہر حال چل رہا ہے۔ اتفاقاً ایک جگہ سورۃالمائدۃ چل رہی تھی، جس میں جب وہ آیات آئیں جو کسی “یہود و نصارىٰ سے دوستی کرنے” یا کسی “غیر ما انزل اللہ پر فیصلے کرنے” والے شخص پر لازماً بھاری گزریں گی، وہاں کچھ لوگوں کی ایک وجد آمیز کیفیت میں انگشتِ شہادت اٹھتی میرے لیے خاص طور پر نوٹ کرنے کی تھی! اس لیے میرا خیال ہے، عجمیوں کے برعکس، عربوں کو قرآن سے دور کرنا ایک خاص حد تک ہی ممکن ہے۔ اور شاید میرے خیال میں، عرب ملکوں میں مسلم عوام پر “ڈنڈے” کے غیرمعمولی استعمال کی ایک بڑی وجہ یہی ہے۔
اسے نیشنلزم کہہ لیجیے یا قومی میڈیا کے زیر اثر ہونا، کہ دو ہمسایہ مسلم قوموں “المغرب” اور “الجزائر” کی آپس میں جس قدر لگتی ہے اتنی اپنی زمینوں پر قابض رہ چکے استعماری ملکوں فرانس اور سپین کے ساتھ ان کی نہیں لگتی۔ اس کی بڑی وجہ اللہ اعلم، علاقائی رقابت اور قیادتوں کی لڑائی ہے۔ ورنہ اگر سرحدی تنازعات کی بات ہو تو “المغرب” کے کچھ علاقے مانند “سبتہ” وغیرہ سپین ابھی تک دبائے بیٹھا ہے، مگر اس کے ساتھ تعلقات پھر بھی اتنے کشیدہ نہیں۔ اس دوقومی لڑائی میں وہاں کا عام شخص بھی اچھا خاصا متعلقہ دیکھا گیا؛ ’اپنے کام سے کام رکھنا‘ ان مسئلوں میں متروک ہے! اس بےمعنىٰ مخاصمت کا کچھ عکس مجھے خال خال اپنے یہاں “پاکستانیوں” اور “افغانیوں” کے آپسی تعصب میں بھی نظر آ جاتا ہے! شریکے کی لڑائی اصل اور بڑے دشمن کو اکثر پس منظر میں لے جاتی ہے۔
عرب اور بربر کی کشمکش میں وہ شدت اب نہیں جو ماضی میں پڑھتے آئے ہیں۔ ’قومی‘ بھٹی میں اب بہت کچھ پگھلایا جا چکا ہے۔

مزید پڑھیں؛ مالکیہ کے دیس میں(1)

کھانوں میں جو اعلىٰ ذوق اور ان کے پیش کرنے کے آداب میں جو تفنن “مَغارِبہ” کے ہاں دیکھا، وہ ترکوں اور شامیوں سے کسی صورت کم نہیں تھا، گو اسلوب ان کا اپنا تھا اور دل میں اترنے والا۔ آتے جاتے کو مرحبا کہنا، خصوصاً اجنبیوں کو جا بجا خوش آمدید کہنا اور کشادہ دلی دکھانا، جس کے متعلق “تیل والے” ملکوں میں اکثر گلہ رہتا ہے، یہاں الحمد للہ آپ کو بہت ملتا ہے۔ مجاملات خوب ہیں۔ خندہ روئی اور پزیرائی گویا مغاربہ کی طبیعت کا حصہ ہے۔ اس لحاظ سے؛ سیاحوں کو کثرت کے ساتھ اپنے ملک کا رخ کروانے میں یہاں کا عام آدمی بھی ایک حصہ ڈالتا ہے۔ سیاحت میرا خیال ہے ان کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ مرابطین کے ہاتھوں تاسیس پانے والا شہر مرّاکش، باوجود صحرائی علاقہ ہونے کے اور باوجود پانی کی شدید قلت کے جہاں بارش سال میں پانچ سات بار ہی ہوتی ہے، اچھا خاصا سرسبز رکھا گیا ہے۔ اور شہر سجانے کا فن تو کوئی “مَغارِبہ” سے سیکھے! نخلستانوں سے ایک خاص ہی حسن پیدا کرایا گیا ہے۔ اپنی اس دل کشی اور اپنے لوک ورثہ کے ساتھ؛ بیرونی سیاحوں کےلیے یہ ایک بہت بڑی جاذبیت ہے۔ یہاں کے لوگ بتاتے ہیں کہ ونسٹن چرچل نے شہر مرّاکش دیکھنے کے بعد کہا تھا: یہ صحراء کا پیرس ہے!
اکثر گاڑیاں وہاں کی مقامی بنی ہوئی ہیں، جیسا کہ وہاں دیکھنے پوچھنے سے معلوم ہوا۔
ملک کے تجارتی گڑھ اور وہاں کے سب سے زیادہ آباد شہر “الدار البیضاء” کی خوب صورت عجوبہٴ روزگار “مسجد الحسن الثانی” سے متصل ساحلِ سمندر پر… جہاں لوگ بڑی تعداد میں سیر سپاٹے کےلیے آئے ہوئے تھے، سیاح بھی بہت تھے اور مقامی پبلک بھی، ایک بات خاص طور پر نوٹ کرنے کو ملی، یا نوٹ کرنی پڑی: اس کھچاکھچ ساحل پر نہ کوئی ایک بھی اڑتا اڑاتا شاپر، نہ جوس کا کوئی ایک بھی خالی ڈبہ، نہ کوئی بساند مارتا ریپر، نہ کوئی کٹا پھٹا کاغذ یا ٹشو، نہ کوئی ہوا میں لڑھکتی پھرتی بوتل، نہ کوئی چکن کی بھنبھوڑی ہوئی ہڈی، اور نہ کوئی ڈسپوزیبل پلیٹ یا گلاس…غرض “کچرا” نام کی کوئی شے دور دور تک نہیں ملی۔ یہ دیکھ کر سچی بات ہے دل خوش بھی بہت ہوا اور خراب بھی! ایک پاکستانی ان ہر دو محسوسات کے بغیر اس موقع پر شاید نہیں رہ سکتا!

حامد کمال الدین