جب کوئی عالمِ دین فوت ہوتا ہے تو بہت سارے لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے ساتھ اپنے تعلق کو بیان کریں، اب کیمرے کا دور ہے، اس وجہ سے لوگوں نے تصاویر اور ویڈیوز بھی لگانا شروع کر دی ہیں۔
لیکن حقیقی بات یہ ہے کہ شیخ رحمہ اللہ نے اپنی زندگی کے آخری سال اور دن جس قسم کی مشکلات میں گزارے ہیں، یہ کہتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے کہ ہمارا بھی شیخ کے ساتھ کوئی تعلق تھا!
کیونکہ اگر واقعتا شیخ رحمہ اللہ کے ساتھ ہم سب کا تعلق مضبوط ہوتا تو یقینا ان کے یہ حالات نہ ہوتے!
شیخ کو اذیت دینے میں اگرچہ چند شر پسند ملوث تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنے بیگانے افراد، جماعتیں، امراء و مامورین، اساتذہ و تلامذہ نے بھی تو کوئی ایسا کردار ادا نہیں کیا کہ جس سے شیخ رحمہ اللہ کے دل کو سکون اور حوصلہ ملتا۔
ہو سکتا ہے کہ کچھ ناسمجھ رسیدیں لے کر آجائیں کہ دیکھیں ہم نے یہ کیا وہ کیا، حالانکہ میری مراد یہ نہیں، مقصود یہ ہے کہ ایک جلیل القدر عالم دین جس طرح اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں، کیا یہ ہم سب کے منہ پر تمانچہ نہیں ہے؟
ہم سب کو کھلے دل سے یہ ماننا چاہیے کہ یہ ہمارے دینی نظام اور سسٹم کی کمزوریاں ہیں، جن کا الزام کسی ایک فرد یا جماعت پر دھرنا ممکن نہیں، کیونکہ بہ حیثیت مجموعی سارا معاشرہ اس کا ذمہ دار ہے۔
بہر صورت پھر بھی شیخ رحمہ اللہ سے متعلق جو کچھ میں جانتا ہوں، عرض کرتا ہوں۔ کیونکہ اس تعلق کے بیان کا مقصد شیخ کے احسانات اور اپنی کوتاہیوں کا اعتراف ہے اور کچھ نہیں!
اللہ تعالی ہماری تقصیر و کوتاہی کو معاف فرمائے اور اگر ہمارے اندر کوئی خیر ہے تو اسے ہمارے اساتذہ کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔
شیخ کے ساتھ راقم الحروف کے تعلق کو چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
1۔ جامعہ رحمانیہ (91 بابر بلاک، گارڈن ٹاؤن لاہور) میں شیخ سے استفادہ
2۔ سبزہ زار لاہور میں شیخ رحمہ اللہ کی لائبریری سے استفادہ
3۔ مدینہ منورہ میں شیخ رحمہ اللہ سے ملاقاتیں
4۔ مدینہ سے فراغت کے بعد شیخ رحمہ اللہ سے تعلق
5۔ شیخ محترم کی شخصیت کے کچھ نمایاں پہلو

سب کو ایک ترتیب سے ذکر کرتا ہوں. ان شاءاللہ۔

(1)
جامعہ رحمانیہ (91 بابر بلاک، گارڈن ٹاؤن لاہور) میں شیخ سے استفادہ

ہم رحمانیہ میں زیر تعلیم تھے، شیخ ربانی رحمہ اللہ کا نام پہلے ہی سن رکھا تھا، لیکن باقاعدہ زیارت اور ملاقات کا موقع تب ملا، جب غالبا 2005 میں شیخ رحمہ اللہ سے جامعہ میں باقاعدہ تدریس کے لیے وقت لیا گیا۔
سردیوں کا موسم تھا، شیخ نے عموما مجاہدین والی جیکٹ پہنی ہوتی تھی، ساتھ ایک گارڈ بھی ہوتا تھا، اور اسلحہ بھی موجود ہوتا تھا۔
جونہی جامعہ میں داخل ہوتے، سب کی توجہ کا مرکز و محور بن جاتے۔
جس کلاس میں جاتے کئی بچے اور اساتذہ بھی اسی طرف رخ کرلیتے!
شیخ کا کتابوں سے محبت کا عالم یہ تھا کہ یہاں بھی آکر 99 جے جامعہ کی لائبریری میں جاتے تو وہاں سے جو کتابیں مفید محسوس ہوتیں، ان کی فوٹو کاپی کروا لیتے۔ اسی طرح جن کلاسوں کو پڑھاتے تھے، انہیں اپنے پاس سے کتابیں لا کر دیتے کہ انہیں فوٹو کاپی کروا لیں۔
مثلا ضوابط الجرح والتعدیل للشیخ عبد العزیز العبد اللطیف انہوں نے لا کر دی کہ اسے فوٹو کاپی کروا لیں، کیونکہ یہ بازار میں دستیاب نہیں تھی (بعض دوستوں نے توجہ دلائی کہ اب اس کے مختلف ایڈیشنز دستیاب ہیں)
شیخ رحمہ اللہ کا بولنے کا ایک مخصوص انداز ہے، میں نے جب پہلی دفعہ شیخ ثناء اللہ زاہدی حفظہ اللہ کو سنا تو مجھے اندازہ ہوا، شیخ ربانی اصل میں اپنے استاد محترم کی کاپی کرتے ہیں!
ہنستے مسکراتے بڑے بڑے علمی اور مناظرانہ نکات بیان کیا کرتے تھے۔
مثلا مناظروں میں عموما ایک مسئلہ زیر بحث آتا ہے کہ ’و’ مطلقا جمع کے لیے ہوتی ہے یا ترتیب کے لیے؟ تو شیخ نے اس حوالے سے ایک مناظرے کا ذکر کیا اور فرمانے لگے مخالف مناظر نے کہا کہ واؤ ترتیب کے لیے ہوتی ہے تو میں نے اس کے سامنے یہ آیت پڑھی:
والله أخرجكم من بطون أمهاتكم لا تعلمون شيئا و جعل لكم السمع والأبصار والأفئدة…
کہ بتاؤ تمہارے کان، آنکھیں وغیرہ پیدا ہونے کے بعد ساتھ لگائے گئے تھے؟
ضوابط الجرح والتعدیل کا سبق پڑھاتے ہوئے ایک جگہ پر مصنف نے تمام کبار ائمہ کا ذکر کیا ہے، لیکن اس میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ذکر نہیں ہے.. شیخ کہتے: یہ اس لیے نہیں، کیونکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حدیث اور جرح و تعدیل کے امام تھے ہی نہیں!
اسی طرح ہمیں یاد ہے انہیں دنوں امام کعبہ عبد الرحمن سدیس پاکستان آئے تھے اور انہوں نے غالبا الحمراء ہال (لاہور) کے اندر امام احمد کا معروف زمانہ کلام پڑھا تھا:
أهل الحديث هم أهل النبي وإن لم يصحبوا نفسه أنفاسه صحبوا
تو شیخ محترم جب کلاس میں آئے تو بہت خوش تھے، ہمیں بھی بتایا اور اپنے موبائل سے بہت سارے لوگوں کو یہ میسیج بھی کیا کہ امام کعبہ نے اہل حدیث کی تعریف کی ہے.. وغیرہ۔
ان دنوں عموما ایک ہی سم والے موبائل ہوتے تھے، ہم نے پہلی دفعہ شیخ کے پاس دو سموں والا موبائل دیکھا۔
شیخ رحمہ اللہ نے اپنے موبائل پر مرغے کی آواز والی بیل لگائی ہوئی تھی کہ یہ کم از کم موسیقی اور ساز سے بہتر ہے۔
مولانا ابو انس محمد یحیی گوندلوی رحمہ اللہ خالص مسلکی ذہن رکھنے والے عالم دین تھے اور انہوں نے مقلدین ائمہ کی عدالت کے نام سے ایک کتاب لکھی، جو ان دنوں میرے مطالعہ میں تھی، اس میں ان کا انداز ہے کہ جن ائمہ کے اقوال ذکر کرتے ہیں ان کے ساتھ سابقے لاحقے بھی ذکر کرتے ہیں۔
میں نے وہ سب سابقے لاحقے یاد کیے ہوئے تھے، اس میں انہوں نے جب حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ کا ذکر کیا تو ان کے ساتھ ’حافظ الغرب’ کا سابقہ لگایا ہوا تھا، اس وقت اتنی سمجھ نہیں تھی، میں نے سمجھا شاید یہ ان کا نام ہے۔ شیخ ربانی رحمہ اللہ کو میں نے دکھایا کہ استاد جی یہ حافظ الغرب کا قول دیکھیں.. شیخ مسکرائے اور کہنے لگے بیٹا یہ ان کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ یہ بطور صفت اور لقب کے ان کے ساتھ ذکر کیا ہوا ہے۔
شیخ کو اسانید و رواۃ اور جرح و تعدیل کے اقوال بہت حد تک زبانی یاد تھے، سب چیزیں زبانی اور روانی سے بتاتے رہتے تھے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک طالبعلم (ہمارے دوست محمود سیاف) نے کوئی روایت ان کے سامنے پڑھی، تو شیخ کہنے لگے اس کی سند کیا ہے، وہ پڑھیں… سند سن کر اس کا حکم بتا دیا.. جس سے اندازہ ہوا کہ شیخ کو رواۃ کی پہچان اور ان کے مراتب وغیرہ زبانی یاد تھے!
كفيتكم تدليس ثلاثة…. اسی طرح لا یقبل من حدیث حماد بن أبی سلیمان إلا ما رووہ عنہ القدماء…جیسے اقوال بعد میں ہمیں ازبر ہوگئے تھے، لیکن سب سے پہلے اس قسم کے فوائد ہمیں شیخ ربانی رحمہ اللہ سے ہی سننے کا اتفاق ہوا۔
شیخ ربانی رحمہ اللہ ہمارے ہوتے ہوئے دو بار رحمانیہ تشریف لائے، پہلی بار ہم چھوٹی کلاسوں میں تھے، اس لیے باقاعدہ پڑھنے کا موقع نہیں ملا، دوسری بار ہم نے باقاعدہ ان سے ضوابط الجرح والتعدیل، الہدایۃ للمغرغینانی اور سنن النسائی وغیرہ کے اسباق پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔
شیخ سنن النسائی کے لیے ایک شرح ساتھ لے کر آتے تھے غالب امکان ہے کہ وہ اثیوبی رحمہ اللہ کی ’ذخیرۃ العقبی’ ہی تھی۔ ہم نے پوچھا کہ کون سی شرح لیں؟ فرمانے لگے: یہ ضخیم شرح تو تم لے نہیں سکتے، پاکستان میں جو کچھ دستیاب ہے، ان میں مولانا بھوجیانی رحمہ اللہ کے حاشیے والا نسخہ ہی بہترین ہے۔
بلکہ بعض دفعہ اگر اپنی شرح والا نسخہ نہ لا پاتے تو التعلیقات السلفیہ سے ہی پڑھایا کرتے تھے۔
اسی طرح سنن الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی خریدنے کے لیے میں نے ایک بار شیخ رحمہ اللہ سے فون پر مشورہ کیا، فرمانے لگے جو بیروتی نسخہ ہے وہ تو بہت مہنگا ہے، ایک اور نسخہ چار بڑی جلدوں میں ہے، اس میں ساتھ ابو الفضل فیض الرحمن ثوری رحمہ اللہ کی رش السحاب بھی ہے، وہ لے لیں۔
سینئر اساتذہ بھی شیخ کی عزت و تکریم کرتے تھے اور خود شیخ بھی بڑے چھوٹے سب اساتذہ کا انتہائی ادب و احترام بجا لاتے تھے۔
ایک دفعہ عید الاضحی کے موقع پر بچوں کو چھٹیاں کرنی تھیں تو اس سے پہلے سوال و جواب کی نشست رکھی گئی، تاکہ طالبعلموں کو مسائل قربانی سے متعلق جو سوالات ہیں پوچھ لیں۔ تو نائب شیخ الحدیث مولانا رمضان سلفی حفظہ اللہ کی موجودگی میں شیخ ربانی رحمہ اللہ کو سوال و جواب کے لیے منتخب کیا گیا، اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شیخ محترم نے باقاعدہ مکمل نشست خود بیٹھ کر سماعت کی اور آخر میں فرمایا: کہ شیخ ربانی حفظہ اللہ نے آپکو قربانی کے مسائل بتائے ہیں، جبکہ میں آپ کو کھالوں کے مسائل بتاؤں گا۔
شیخ رمضان سلفی حفظہ اللہ کی مراد یہ تھی کہ قربانی کے مسائل آپ نے شیخ ربانی سے سمجھ لیے ہیں، جبکہ میں آپ کو تلقین کرتا ہوں کہ قربانی کی کھالیں اپنے مدرسے کے لیے لے کر آئیں..!!
اسی طرح ہمارے ہر دلعزیز استاذ گرامی مولانا محمد شفیع طاہر حفظہ اللہ کا شیخ ربانی رحمہ اللہ سے بڑا گہرا تعلق تھا۔ شیخ ربانی بھی ان کی بڑی عزت کرتے تھے، ایک بار بارش کا موسم تھا تو شیخ ربانی رحمہ اللہ شیخ شفیع طاہر صاحب کو خود ان کی مسجد سے لے کر مدرسے آئے، کیونکہ شفیع صاحب کے پاس ان دنوں سائیکل ہوتی تھی، جبکہ شیخ ربانی رحمہ اللہ گاڑی پر آیا کرتے تھے!
ہمارے استادِ محترم مولانا عبد الرشید خلیق رحمہ اللہ مسلک کے اعتبار سے دیوبندی تھے، لیکن شیخ ربانی رحمہ اللہ کا ان کے ساتھ تعلق بھی بہت اچھا تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک بار اساتذہ کے دفتر میں دونوں بزرگ مل رہے تھے اور شیخ خلیق شیخ ربانی کا منہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر بچوں کی طرح انہیں پیار کر رہے تھے!!
شیخ ربانی رحمہ اللہ پر جب فالج کا اٹیک ہوا، تو شیخ عبد الرشید خلیق رحمہ اللہ ان دنوں باقاعدہ قاری عبد السلام عزیزی حفظہ اللہ کے ساتھ شیخ ربانی کی عیادت کرنے کے لیے آئے (جس کی تصویریں یہیں کہیں سوشل میڈیا پر موجود ہوں گی)
جامعہ رحمانیہ میں شیخ کی یادیں آج سے کوئی بیس سال پہلے کی ہیں۔ اس وقت شیخ کے فرزندان حسن اور حسین چھوٹے تھے، بلکہ کچھ عرصہ یہ شیخ محترم کے ساتھ آتے رہے اور جامعہ رحمانیہ میں حفظ کی کلاس میں بیٹھتے رہے!
غالبا بعد میں درس نظامی کی بھی کئی کلاسیں انہوں نے رحمانیہ میں ہی پڑھی تھیں۔
شیخ اپنے چھوٹے صاحبزادے حسین سے زیادہ پر امید تھے، بڑی خوشی سے بتایا کرتے تھے کہ ماشاء اللہ بڑا باذوق ہے، اور حقیقت بھی ایسے ہی ہے، اللہ تعالی دونوں بھائیوں کو اپنے والدِ محترم کا بہترین جانشین بنائے۔
شیخ ربانی رحمہ اللہ ہمارے استادِ محترم شیخ العرب والعجم حافظ ثناء اللہ المدنی رحمہ اللہ کا تذکرہ خیر بھی بڑے ادب و احترام سے کیا کرتے تھے، کئی بار سنا، فرمایا کرتے تھے: حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ و متعنا بطول حیاتہ’۔ بلکہ ایک بار ہمیں بتایا کہ شیخ محترم ثناء اللہ مدنی رحمہ اللہ کو کسی کتاب (غالبا صحیح ابن حبان) کی ضرورت تھی، مجھے پتہ چلا تو میں نے اپنی لائبریری سے نسخہ لے کر ان کی خدمت میں ارسال فرمایا۔

آخر میں دو تین باتیں جو شیخ رحمہ اللہ اور رحمانیہ کے تعلق سے مجھے بعض دوستوں نے بتائیں، ذکر کرکے اس سلسلے کو ختم کرتے ہیں۔ ہمارے ہم جماعت قاری امجد صاحب نے بتایا کہ ایک بار شیخ صاحب کو میں نے دیکھا کہ ایک جگہ سے فروٹ لے رہے تھے، تو دو شاپروں میں برابر فروٹ ڈلوایا حالانکہ وہ ایک میں ہی آ سکتا تھا، ہم نے اس کی حکمت پوجھی تو فرمایا: بیٹا میری دو بیویاں ہیں، دونوں کے لیے الگ الگ لیا ہے، کیونکہ بیویوں میں انصاف کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح ایک اور بھائی نے بتایا کہ شیخ محترم  رحمانیہ آیا کرتے تھے تو جب بھی تنخواہ ملتی، گیٹ کیپر کی خصوصی خدمت کرتے تھے حتی کہ جب جامعہ سے تنخواہ میں اضافہ ہوتا تو گیٹ کیپر کی خدمت میں بھی اضافہ ہو جاتا۔ ہمارے ہوتے ہوئے شیخ محترم وقفے وقفے سے دوبار رحمانیہ پڑھانے آئے، پھر ہمارے مدینہ جانے کے بعد بھی شیخ رحمانیہ پڑھاتے رہے ہیں، یہ آخری واقعہ بتانے والے طالبعلم اسی مرحلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارے ساتھی ابو ہریرہ عاشق کا شیخ محترم کے ساتھ خصوصی تعلق تھا، جب شیخ محترم سے جامعہ کی ایک دوسری شاخ البیت العتیق کے لیے وقت لیا گیا، تو اس میں واسطہ ابو ہریرہ بھائی ہی تھے۔ شیخ محترم کا پیار اور محبت تھی کہ جب کبھی کسی پروگرام پر جانا ہوتا تو کئی بار ان کو ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ شیخ محترم اپنے تلامذہ کی یوں بھی حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ آپ کے کہنے پر میں نے فلاں جگہ وقت دیا ہے، ورنہ اگر انتظامیہ براہ راست رابطہ کرتی تو میں نے معذرت کر لینی تھی… وغیرہ۔

(2)

سبزہ زار لاہور میں شیخ رحمہ اللہ کی لائبریری سے استفادہ

شیخ رحمہ اللہ کی لائبریری آپ کے گھر میں ہی ہوتی تھی، مرکز الحسن کی ان دنوں جگہ حاصل کر لی گئی تھی، عارضی طور پر نماز و جمعہ کا انتظام تھا لیکن ابھی تک باقاعدہ تعمیری سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا۔
شیخ نے ہمیں بتایا کہ لوگ سمجھتے ہیں شاید میں نے ’مرکز الحسن’ نام اپنے بیٹے کی وجہ سے رکھا ہے، حالانکہ یہ اصل میں جس شخص نے جگہ وقف کی ( یا اس کے حصول میں تعاون کیا) اس کے بیٹے کا نام ہے۔ ایک حسن یہ تھا، دوسرا آپ کے تخصص کے شاگردوں میں بھی ایک حسن نامی طالبعلم تھا، اسی طرح آپ کے بیٹے کا نام بھی حسن تھا۔
بہرصورت جب شیخ رحمہ اللہ نے رحمانیہ پڑھانا شروع کیا، تو اسی بہانے ہمیں شیخ کی لائبریری میں آنے جانے کا موقع مل گیا، جو نہی جمعرات کو ظہر کی چھٹی ہوتی، ہم برکت مارکیٹ سے سبزہ زار پہنچ جاتے اور جمعے والے دن شام تک ادھر ہی وقت گزارتے۔
شیخ رحمہ اللہ ہوتے نہ ہوتے، کھانے پینے اور سونے کا بندوبست ادھر ہی ہوتا تھا۔
زندگی میں پہلی بار اتنی کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا، لائبریری میں چلے جاتے تو سونے کو جی نہیں چاہتا تھا، ایک سے بڑھ کر ایک کتاب۔ جس کتاب کو پکڑ لیتے، کھڑے کھڑے اسی کو دیکھتے رہتے!
اسماء الرجال، جرح و تعدیل وغیرہ کی بڑی بڑی ضخیم کتابیں تھیں، لیکن عموما جس کتاب کو بھی کھولتے، شیخ رحمہ اللہ نے اس پر حواشی اور نوٹس وغیرہ ضرور لکھے ہوتے تھے۔
وہاں شیخ رحمہ اللہ کے پاس تخصص کرنے والے طالبعلم بھی ہوتے تھے، ان سے رہنمائی لے کر کتابوں سے خوب استفادہ کرنے کی کوشش کی۔
شیخ کے ایک بڑے عظیم اور قابل شاگرد تھے، انہوں نے ہمیں بتایا کہ حدیث کی تخریج کیسے کرتے ہیں؟ رواۃ سے متعلق اقوال کی تحقیق و تنقیح کا طریقہ کار کیا ہے! اسی طرح یہ نکتہ پہلی دفعہ ہمیں معلوم ہوا کہ تہذیب التہذیب اور تہذیب الکمال وغیرہ کتابیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں، اصل کتابیں وہ ہیں جن سے امام مزی، ذہبی اور ابن حجر وغیرہ نقل کرتے ہیں۔
چنانچہ ہمارے لیے یہ ایک نیا دلچسپ کھیل بن گیا کہ جو بات کسی ایک جگہ نظر آجاتی، اسے دیگر کتابوں سے ڈھونڈنا شروع کر دیتے، جب مل جاتی تو بہت خوشی ہوتی اور اندر ہی اندر ’محقق’ بننے کا ’احساس’ ہوتا!
ہم نے اپنے نوٹس بنانا شروع کردیے، احادیث کی تخریج اور راویوں کی تحقیق کا سلسلہ شروع کر دیا.. لیکن الحمد للہ اس زمانے میں سوشل میڈیا نہیں تھا، اس لیے ان محققانہ کاوشوں سے عوام الناس محفوظ ہی رہے!
ہاں البتہ جو نکتے وہاں سے یاد کر کے آتے، وہ پورا ہفتہ مدرسین اور اساتذہ کرام کو بہانے بہانے سے ضرور بتاتے رہتے!
جب کبھی شیخ رحمہ اللہ لائبریری میں موجود ہوتے تو وہ خود کتابوں سے چیزیں تلاش کرنے کا طریقہ بتاتے، اسی طرح بعض اپنی پسندیدہ کتابوں کا تعارف بھی کرواتے، اور کتابوں کی اہمیت بھی بتاتے!
اس وقت چونکہ مکتبہ شاملہ اور گوگل سرچ وغیرہ کا رواج نہیں تھا، اس لیے کتابوں سے چیزیں تلاش کرنے کے لیے فہارس کی بہت اہمیت تھی، کئی ایک کتابوں کے ساتھ ہم نے دیکھا کہ شیخ نے الگ سے فوٹو کاپی کروا کے نوٹس وغیرہ لگائے ہوتے تھے، تاکہ ضخیم کتابوں سے مطلوبہ چیز بآسانی مل جائے۔
ہم چونکہ کلیۃ القرآن کے طالبعلم تھے اور شاطبیہ ہمارے لیے ایسے ہی تھی، جیسے حدیث میں بخاری کا مقام ہے، شیخ رحمہ اللہ نے ایک بار ہمیں کہا کہ تم قاری ہو، شاطبیہ سے متعلق آپ کو ایک چيز دکھاتا ہوں۔ چنانجہ شیخ محترم ایک جلد میں ایک کتاب لے کر آئے، جس میں شاطبیہ کا مکمل اعراب بیان ہوا تھا، ہم بڑے حیران ہوئے کہ شیخ کا شاطبیہ کے ساتھ کیا تعلق؟
بلکہ اس کی بھی ایسی شرح لے کر آئے ہیں، جس کا عام طور پر متخصصین کو بھی علم نہیں ہوتا۔ وہ کتاب مجھے کنفرم نہیں کون سی تھی لیکن غالب امکان ہے کہ وہ الكواكب الدرية في إعراب متن الشاطبية تھی۔
شیخ رحمہ اللہ نے جب محسوس کیا کہ انہیں یہ کتاب بہت پسند آئی ہے، اور ہمارے اطوار سے انہیں خدشہ لاحق ہوا ہوگا، لہذا مسکراتے ہوئے فرمانے لگے: اب میں یہ کتاب چھپا کر رکھوں گا، کیونکہ مولوی کتاب کی چوری کو چوری نہیں سمجھتے!
غالبا شیخ رحمہ اللہ نے اپنی لائبریری سے ہی ایک انوکھی کتاب دکھائی، اس میں مصنف نے ایک ہی متن کے اندر کئی ایک علوم و فنون کو جمع کر دیا تھا۔ ترتیب ایسی عجیب تھی کہ دائیں سے بائیں پڑھیں تو ایک فن تھا، اوپر سے نیچے پڑھیں تو وہی الفاظ کوئی اور معنی دے رہے ہوتے تھے!
شیخ رحمہ اللہ کے کچھ قلمی نسخے بھی دیکھنے کو ملے، بلکہ بعض علمائے کرام کے قلمی نسخے جو انہوں نے شیخ کے پاس نظرثانی کے لیے بھجوائے تھے، وہ بھی وہاں نظر آ جاتے!
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شیخ کے پاس شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی سنن ابی داود کی تحقیق و تخریج بنام ’نیل المقصود’ کا قلمی مسودہ موجود تھا، جو آپ کے پاس نظرثانی کے لیے آیا ہوا تھا۔
کیونکہ انوار الصحیفۃ اور اسی طرح دار السلام وغیرہ سے شیخ زبیر صاحب کی تحقیقات یہ بعد میں منظر عام پر آئی تھیں!
طالبعلموں کو مختلف علمائے کی ایک دوسرے کے متعلق رائے جاننے کا بھی بڑا شوق ہوتا ہے۔ ہم شیخ سے شیخ زبیر رحمہ اللہ سے متعلق بھی پوچھا کرتے تھے: شیخ ان کی بڑی تعریف کرتے، لیکن ساتھ یہ بھی بتاتے کہ ’فقہ الحدیث’ میں ان کا تھوڑا مسئلہ ہے۔

شیخ رحمہ اللہ نے نیل المقصود کی نظرثانی کرتے ہوئے کئی ایک احادیث میں شیخ زبیر رحمہ اللہ کے حکم سے اختلاف کیا اور ’النقد الظاہر علی أبی طاہر‘ کے عنوان سے ایک رسالہ لکھ کر شیخ کو ارسال کردیا، شیخ مبشر صاحب کے بقول شیخ زبیر صاحب نے پھر سنن ابی داود کی لگ بھگ سو احادیث پر اپنے احکام میں تبدیلی کی۔
شیخ رحمہ اللہ نے لائبریری میں بھی اور جب رحمانیہ میں ہمیں کلاس میں پڑھاتے تھے، ایک کتاب مفتاح البخاری بھی بڑے اہتمام سے دکھائی اور توجہ دلائی کہ تمام کتبِ حدیث کی اس طرح کی ’مفاتیح’ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم چونکہ اس وقت شیخ رحمہ اللہ سے سنن النسائی پڑھ رہے تھے، چنانچہ میں نے مفتاح النسائی پر کام شروع کیا، لیکن چند سو احادیث پر کام کرکے بعد میں درمیان میں ہی رہ گیا!
اب یہ بھی یاد نہیں کہ وہ مسودہ کہیں موجود بھی ہے یا نہیں!
بعض دفعہ ہم جمعرات کو شیخ کی لائبریری میں آتے تو پتہ چلتا کہ شیخ رحمہ اللہ کسی مناظرے پر گئے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی کتابوں کی الماریوں میں سے بعض جگہیں خالی نظر آتیں، کیونکہ شیخ سب کتابیں ساتھ لے جاتے تھے!
جنہوں نے شیخ رحمہ اللہ کے مناظرے دیکھے ہیں، وہ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شیخ مناظرے کی مکمل تیاری کرکے، حوالے وغیرہ نکال کر اور ہر قسم کی کتابیں ساتھ لے کر جایا کرتے تھے!
شیخ رحمہ اللہ ان دنوں جمعہ چیمبرلین مسجد میں پڑھاتے تھے، بعض دفعہ جمعہ سے پہلے سفر سے واپس آتے تو لائبریری میں موجود بعض جدید عربی رسائل دیکھ لیتے اور یہی ان کی جمعہ کی تیاری ہوتی!
بعض دفعہ شیخ رحمہ اللہ سفر سے واپس آتے تو وہاں موجود طلبہ سعادت مندی سمجھ کر ان کو دباتے اور ان کی خدمت کرنے کی کوشش کرتے، تاکہ شیخ محترم کی تھکاوٹ اتر جائے!
ایک بار ہم کلاس کے کافی سارے ساتھی شیخ رحمہ اللہ سے باقاعدہ وقت لے کر لائبریری میں حاضر ہوئے، شیخ نے کھانا بھی کھلایا اور جب مغرب کی نماز کا وقت ہوا تو ہمارے ساتھی عبد المنان مدنی صاحب کو حکم دیا کہ آپ امامت کروائیں اور شیخ نے ہمارے ساتھ بطور مقتدی نماز ادا کی۔
اسی طرح ہمارے ایک اور کلاس فیلو محمود سیاف صاحب نے ایک بار شیخ کی مسجد میں جمعہ بھی پڑھایا، کیونکہ شیخ خود چیمبرلین میں جمعہ پڑھاتے تھے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔
اس زمانے میں شیخ کی لائبریری میں ٹیبل کرسیاں وغیرہ نہیں ہوتی تھیں، بلکہ نیچے ہی ڈیسک وغیرہ رکھ کر بیٹھتے تھے، اسی طرح شیخ نے مطالعہ کرتے وقت ٹیک لگانے کے لیے ایک کرسی سی بھی رکھی ہوتی، جس میں بیٹھنے کی جگہ اور ٹیک ہوتی ہے، نیچے ٹانگیں نہیں ہوتیں، یہ کرسیاں بعد میں تو ہم نے عام دیکھیں، لیکن سب سے پہلے شیخ کے پاس ہی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔
کبھی کبھی ایسے بھی ہوتا کہ اگر شیخ کے پاس کسی کتاب کے اضافی نسخے ہوتے تو آپ لائبریری میں آنے والے طلبہ کو بطور تحفہ اور ہدیہ بھی دے دیا کرتے تھے۔
شیخ رحمہ اللہ نے بعض موضوعات پر باقاعدہ اپنا رجسٹر بھی تیار کیا ہوا تھا، جیسا کہ ان دنوں اشرف آصف جلالی صاحب نے ’عقیدہ توحید سیمنار’ کے نام سے شرک پھیلانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا، اس کا سب سے مفصل جواب اور علمی محاکمہ شیخ نے ہی کیا تھا، اور اس کا باقاعدہ رجسٹر تیار تھا۔ بعد میں کئی ایک لوگوں نے اس طرف توجہ کی اور شیخ سے استفادہ کرتے ہوئے اس کا تحریری یا تقریری جواب دیا۔
ان دنوں شیخ رحمہ اللہ کا طریقہ کار یہ تھا کہ جہاں بھي اشرف جلالی صاحب کی تقریر یا سیمینار ہوتا، شیخ بھی اس کے آس پاس اپنا بیان رکھواتے اور وہاں اس کی باتوں کا تفصیلی جواب دے کر آتے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں جامعہ رحمانیہ کی البیت العتیق والی شاخ نئی نئی شروع ہوئی تھی، لہذا وہاں پر شیخ رحمہ اللہ کا باقاعدہ اسی موضوع پر درس رکھا گیا، جس میں آپ نے بڑا مدلل و مفصل خطاب فرمایا اور دلائل اور حوالہ جات کے انبار لگا دیے۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ علم کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے۔ لغت، حدیث، شروحات، فقہ، عقیدہ وغیرہ تمام کتابوں کے حوالے ایسے روانی سے بولتے تھے، جیسے بندہ اسپیشل کسی چیز کو رٹا لگا کر آتا ہے۔ اور شیخ کی ’علمی تقریروں’ کا یہ خاصا ہے کہ اس میں حوالے اور نصوص بہت ہوتی تھیں!
لاہور میں تین لائبریریاں تھیں، جن میں ہمیں قدرے زیادہ جھانکنے کا موقع ملا، 99 جے میں محدث لائبریری، دوسرے نمبر پر استاد محترم محمد شفیع طاہر حفظہ اللہ کی لائبریری اور تیسری شیخ ربانی رحمہ اللہ کی لائبریری، مؤخر الذکر سے استفادہ سب سے زیادہ کیا!
استاد محترم شفیع صاحب بھی بڑے شفقت و محبت کرنے والے اور مہمان نواز تھے، اس لیے بعض دفعہ ہم ان کے پاس بھی چلے جایا کرتے تھے، حدیث اور تخریج کی بہت ساری کتابیں ہم نے انہیں کے توسط سے دیکھی سنی تھیں!
اول الذکر (محدث) لائبریری کا نظام الاوقات ہمیں زیادہ سوٹ نہیں کرتا تھا، اس لیے اس سے کما حقہ مستفید نہیں ہو پائے۔

(3)
مدینہ منورہ میں شیخ رحمہ اللہ سے ملاقاتیں

جب ہم مدینہ چلے گئے تو اندازہ ہوا کہ شیخِ محترم نے ہمیں شاگرد کی بجائے دوستوں کی طرح سمجھنا شروع کر دیا، کیونکہ بعض دفعہ آپ ہمیں ’شیخ’ کے سابقے لاحقے کے ساتھ بھی مخاطب کیا کرتے تھے، جو یقینا آپ کا بڑا پن اور وسعت ظرفی اور اپنے شاگردوں کی حوصلہ افزائی تھی۔
ہمارے مدینہ میں ہوتے ہوئے شیخ محترم کئی بار حج و عمرے کے مواقع پر وہاں تشریف لائے۔
ہم رحمانیہ کے زیادہ ساتھی جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی رہائشی بلڈنگ نمبر 14 میں رہتے تھے۔
شیخِ محترم مسجدِ نبوی سے طالبعلموں کے ساتھ وہیں تشریف لے آیا کرتے تھے۔
ایک بار تو شیخ محترم مکمل دو دن جامعہ اسلامیہ وحدۃ 14 میں رہے۔
ہمارے دوست زبیر مدنی صاحب کے بقول یہ وہ سال تھا جب شیخ عبد المنان نورپوری رحمہ اللہ فوت ہوئے تھے۔ زبیر صاحب اور عبد المنان صاحب دونوں کلیۃ الشریعہ میں پڑھتے تھے اور ان کے پاس فضیلۃ الشیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ کا حدیث کا سبق ہوا کرتا تھا، شیخ ربانی رحمہ اللہ باقاعدہ ان دونوں کے ساتھ جا کر شیخ عباد حفظہ اللہ کی کلاس میں بیٹھے اور مکمل درس سماعت کیا اور بعد میں شیخ حفظہ اللہ سے ملے بھی اور شیخ نے ان کو شیخ نور پوری رحمہ اللہ کی وفات کی خبر دی۔
ہم کلیۃ الحدیث میں تھے، میرے ہاتھ میں المحرر فی الحدیث نامی کتاب تھی، عصر کے بعد جب گاڑیاں جامعہ سے مسجد نبوی جاتی ہیں، شیخ ربانی رحمہ اللہ وحدۃ 12 اور 9 کے درمیان بس سٹاپ سے ہمارے ساتھ بیٹھ کر مسجد نبوی تشریف لے گئے۔
اسی دوران کئی بار شیخ رحمہ اللہ کے ساتھ مسجدِ نبوی، مدینہ منورہ میں مختلف مقامات پر جانے کا اتفاق ہوا۔ کلیۃ الحدیث کے میرے ساتھی حافظ سلیم آصف صاحب، جو آج کل للیانی قصور میں اخوت کالج میں لیکچرار ہیں، یہ بھی وحدۃ رابعۃ عشر میں رہتے تھے اور رحمانیہ کے ساتھیوں کے ساتھ کافی گہرا تعلق اور دوستی رکھتے تھے، انہیں بھی شیخ رحمہ اللہ کے ساتھ رہنے اور وقت گزارنے کا بھرپور موقع ملا۔ بلکہ چند دن پہلے انہوں نے اپنی وال سے 27 نومبر 2012 کا ایک مختصر ویڈیو کلپ بھی نشر کیا، جس میں ہم سب ساتھی شیخ ربانی رحمہ اللہ کے ساتھ ایک ہوٹل میں کھانے پر جمع ہیں۔
ان دنوں مدینہ میں کافی سردی تھی، لہذا شیخ محترم نے مسجد نبوی کے پاس ’ابراج طیبہ’ میں جا کر ایک بہترین قسم کا کوٹ بھی لیا، جو اس ویڈیو میں بھی پہنے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
اسی مرتبہ ہم مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے، تو میں نے شیخ رحمہ اللہ سے پوچھا کہ آپ نے عربی میں کوئی تصانیف کی ہیں؟ تو شیخ رحمہ اللہ نے بتایا کہ مستقل کوئی تصنیف نہیں ہے، لیکن مناقب الشافعی للإمام ابن ابی حاتم کی تحقیق و تخریج کی ہے۔ ہم نئے نئے مدینہ گئے تھے، عربی کا بڑا ذوق شوق تھا، اسی حماقت اور جرات میں، میں نے شیخ سے کہا کہ استاد جی آپ عربی میں بھی کتابیں لکھیں!! مجھے اپنا احمقانہ اصرار اور شیخ صاحب کا بے نیازی سے دیا گیا جواب اور چہرے کے تاثرات آج بھی یاد ہیں، فرمایا:’ٹھیک ہے، لکھیں گے’۔ ان شاء اللہ۔
اسی طرح دو ہزار اٹھارہ میں شیخ رحمہ اللہ اپنے بیٹے حسن اور دیگر عزیزوں کے ساتھ ایک بار پھر مدینہ تشریف لائے تو فون پر رابطہ ہوا، فرمانے لگے: عصر کے بعد جہاں شیخ عبد الباسط فہیم صاحب کا اردو میں درس ہوتا ہے، وہاں ملیں گے۔
میری اس وقت مسجد نبوی پڑوس میں معرض القرآن میں ڈیوٹی ہوتی تھی، میں چھٹی لے کر شیخ کی خدمت میں پہنچا، دونوں مشایخ اور آس پاس مزید کچھ لوگ موجود تھے محوِ گفتگو تھے۔ لوگ سوال شیخ عبد الباسط صاحب سے کرتے تو آپ انہیں شیخ ربانی رحمہ اللہ کی طرف متوجہ کر دیتے، وہاں کسی نے انکارِ حدیث کے حوالے سے سوال کیا تو شیخ رحمہ اللہ نے اس کا جواب دیا اور فرمایا اس کی تفصیل شیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کی ’انکار حدیث حق یا باطل؟’ میں موجود ہے۔
اسی موقع پر آیاتِ سکینت سے متعلق پہلی بار مجھے شیخ رحمہ اللہ کے توسط سے معلوم ہوا اور یہ بھی پتہ چلا کہ یہ شیخ کے معمولات میں شامل ہیں۔
اصل میں مجھے ان دنوں صحت کے کچھ مسائل نئے نئے لاحق ہوئے تھے، چونکہ پہلے کبھی اس قسم کی کیفیت کے متعلق سنا نہیں تھا اور نہ ہی تجربہ تھا، اس وجہ سے عجیب پریشانی رہتی تھی، الٹے سیدھے خیالات آتے رہتے تھے، شیخ کو جب میں نے یہ کیفیت بیان کی تو آپ نے فورا آیاتِ سیکنت کا بتایا۔
بہر صورت مجھے بعد میں اندازہ ہوا کہ معدے اور ہاضمے کی خرابی کے سبب یا بعض دفعہ ذہنی دباؤ اور نیند کی کمی کے مضر اثرات میں یہ کیفیت عام معمول کی بات ہے۔
شیخ کو میں نے بات بہت مختصر بتائی، لیکن شیخ نے اپنے تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر اسے مکمل سمجھ لیا اور اسی مناسبت سے ایک واقعہ حافظ سعید صاحب کا بھی سنایا کہ ایک بار حافظ سعید صاحب نے نماز کی امامت شروع کی، اللہ اکبر کہا اور ذہن بالکل صاف ہوگیا، سمجھ ہی نہ آئے کہ آگے کیا پڑھنا ہے، پھر کسی نے لقمہ دیا تو آپ نے پڑھنا شروع کیا۔
کیونکہ ذہنی دباؤ وغیرہ مسائل کے سبب بات کرتے کرتے بھول جانا یہ عام سا مسئلہ ہے۔
( یہ باتیں یہاں لکھنے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن میں صرف اس وجہ سے لکھ رہا ہوں کہ اگر کوئی ساتھی اس قسم کی کیفیت سے گزر رہا ہے، تو وہ پریشان نہ ہو، یہ ذہن میں رکھيں کہ آپ پہلے نہیں، جن کے ساتھ یہ مسئلہ پیش آرہا ہے، کسی اچھے حکیم یا ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کریں، تھوڑی سی توجہ سے ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے، ورنہ ناسمجھی میں، میں ایک عرصہ تک بہت عجیب وغریب کیفیت میں رہا ہوں)
فضیلۃ الشیخ عبد الباسط فہیم صاحب حفظہ اللہ نے ایک مجلس میں ہمیں بتایا تھا کہ شیخ مبشر ربانی رحمہ اللہ کی یہ خوبی ہے کہ وہ کسی بھی مسئلے کا درست جواب دے کر پھر فریقِ مخالف کی کتابون سے الزامی جواب بھی بھرپور انداز سے دیتے ہیں۔
مدینہ منورہ میں کسی ملاقات کے دوران ہی میں نے شیخ رحمہ اللہ سے اجازہ حدیث بھی لیا، شیخ نے اجازہ بھی عنایت فرمایا اور بعد میں پاکستان واپس جا کر اپنی تمام اسانید وغیرہ کی فوٹوز بھی بھیج دیں، جو آج بھی میرے پاس کہیں نہ کہیں موجود ہوں گی۔ ان شاءاللہ۔
شیخ ربانی رحمہ اللہ کی یہ خوبی تھی علم حاصل کرنے میں چھوٹے بڑے کی پرواہ نہیں کرتے تھے، حرمین شریفین میں تو عموما اردو عربی دروس میں بیٹھ جایا کرتے تھے، اس بات سے قطع نظر کہ یہاں عوام یا آپ کے شاگرد بیٹھے ہوئے ہیں یا نہیں۔ لہذا آپ نے بتایا کہ جب تک مکہ میں ہوتے، شیخ وصی اللہ عباس صاحب کے درس میں بیٹھنے کی کوشش کرتے تھے۔
بلکہ ایک بار بتانے لگے کہ شیخ وصی اللہ عباس حفظہ اللہ تو مکہ اور حرم میں بیٹھ کر بڑے جلال میں آجاتے ہیں، پھر واقعہ بیان کیا کہ کسی شرارتی نے شیخ کو پرچی لکھ کر سخت سست کہنے کی کوشش کی، شیخ نے وہیں سب کے سامنے اس کو خوب سنائیں اور کہا کہ اگر آپ کو ہماری باتون سے تکلیف ہوتی ہے تو یہاں درس میں بیٹھنا ضروری نہیں ہے، کسی اور کے درس میں جا کر بیٹھا کریں، ہم جس کو حق سمجھتے ہیں، اسے بیان کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔
شیخ وصی اللہ عباس بھی شیخ ربانی کو اچھی طرح جانتے تھے، چند روز قبل کسی نے انہیں دوران درس بتایا کہ شیخ ربانی رحمہ اللہ وفات پا چکے ہیں، تو انہوں نے باقاعدہ دورانِ درس آپ کی وفات کا اعلان کیا اور دعائے مغفرت فرمائی۔
ہمارے دوست اور شیخ صاحب کے شاگرد زبیر مدنی صاحب بتاتے ہیں کہ ایک بار مدینہ منورہ میں ’الارھاب’ کے عنوان سے مؤتمر (کانفرنس) ہوئی، اس میں پیش کردہ تمام مقالات جو کم و بیش دس جلدوں پر مشتمل تھے، شرکائے کانفرس کو بطور ہدیہ دیے گئے، شیخ ربانی رحمہ اللہ گو اس میں شریک نہیں ہوئے، لیکن زبیر صاحب نے جو نسخے اپنے لیے حاصل کیے تھے، وہ شیخ محترم کی خدمت میں پیش کر دیے، جو بعد میں ہم نے آپ کی لائبریری میں ملاحظہ کیے۔
ہو سکتا ہے کہ شیخ رحمہ اللہ نے تکفیر وغیرہ سے متعلق اپنے مقالات اور کتابوں میں ان سے استفادہ کیا ہو، کیونکہ شیخ اور آپ کے شاگردوں کی تکفیر کے عنوان پر لکھی ہوئی کتابوں کے عناوین و مضامین بہت حد تک عربی کتابوں سے ملتے جلتے ہیں۔
ستمبر دو ہزار سترہ میں شیخ کے ساتھ کئی ایک دوستوں کی رفاقت میں جو مجلس ہوئی، اسے کسی قدر تفصیل کے ساتھ میں نے قلمبند کر لیا تھا جو کہ ’مدنی محفل نمبر 17’ کے عنوان سے الگ سے موجود ہے، جس میں کئی ایک علمی اور دلچسپ باتیں موجود ہیں۔ جن میں سے کچھ باتیں گزشتہ تحریروں میں گزر گئی ہیں اور کچھ آئندہ میں آئیں گی۔ ان شاء اللہ۔

(4)
مدینہ سے فراغت کے بعد شیخ رحمہ اللہ سے تعلق

میں جب مدینہ سے لاہور آیا اور کلیۃ الحدیث کے لیے نصاب اور نظم و نسق ترتیب دینا شروع کیا، تو شیخ مبشر احمد ربانی رحمہ اللہ سے بھی مشاورت کے لیے مرکز الحسن لائبریری میں حاضر ہوئے اور نصاب وغیرہ جو کچھ بھی تیار کیا تھا، آپ کی خدمت میں پیش کرکے اس حوالے سے تجاویز لیں۔
یہ غالبا 2018ء کی بات ہے جب آپ کی وسیع و عریض لائبریری مرکز الحسن منتقل ہو چکی تھی۔ اس وقت شیخ سے کچھ انفرادی ملاقاتیں بھی ہوئیں اور البیت العتیق کے دیگر اساتذہ و ذمہ داران کی معیت میں بھی حاضری ہوئی۔
اسی مرحلے میں شیخ محترم کے ساتھ دوسرا تعلق لجنۃ العلماء للإفتاء کی حیثیت سے قائم ہوا۔ کیونکہ جب افتاء کمیٹی شروع کی گئی تھی تو اس میں مشایخ کے حکم سے رئیس اللجنۃ کے لیے شیخ محترم حافظ ثناء اللہ مدنی رحمہ اللہ سے گزارش کی گئی، لیکن انہوں نے اپنی صحت اور مصروفیات کے باعث اس سے معذرت کی، ارادہ یہی تھا کہ شیخ سرپرستی فرما دیں اور ان کے نائب فضیلۃ الشیخ عبد الستار حماد (حفظہ اللہ ومتعنا بطول حیاتہ) ہوں گے، لیکن بعد میں ترتیب یوں قرار پائی کہ رئیس شیخ حماد حفظہ اللہ ہوں گے، جبکہ ان کے نائب فضیلۃ الشیخ مبشر احمد ربانی (رحمہ اللہ) ہوں گے۔
لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا، کیونکہ کچھ ہی عرصے بعد شیخ محترم پر فالج کا اٹیک ہوا اور آپ کی تمام علمی و دعوتی سرگرمیاں معطل ہو گئیں۔ آخری فتوی جس کے حوالے سے شیخ محترم سے بات ہوئی وہ اسلامی ریاست میں مندر کی تعمیر کے حوالے سے تھا، اور یہ اصل میں شیخ محترم کی تحریک پر ہی تیار ہوا تھا، کیونکہ ان دنوں اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کا مسئلہ خبروں میں تھا اور شیخ سے بعض لوگ فتوی کے حصول کے لیے مسلسل رابطے میں تھے، تاکہ اس کی بنیاد پر عدالت سے رجوع کیا جائے۔
شیخ کی بیماری سے پہلے جب بھی ملاقات ہوتی تو مختلف علمی و تربیتی فوائد حاصل ہوتے، کالز اور واٹس ایپ پر بھی بات ہو جاتی لیکن جب بیمار ہو کر صاحبِ فراش ہو گئے تو پھر براہ راست آپ کی خدمت میں حاضری کی صورت میں ہی تعلق رہا۔ طبیعت کو سامنے رکھتے ہوئے مجلس کبھی مختصر اور کبھی طوالت بھی اختیار کر جاتی۔ انہیں ملاقاتوں میں شیخ رحمہ اللہ نے خواہش کا اظہار کیا کہ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی مجھے ایک بار صحت عطا کرے تو میری خواہش ہے کہ آئندہ ساری زندگی خدمتِ حدیث میں ہی گزاروں۔ میں نے عرض کی کہ شیخ محترم اب آپ کا مرکز اتنا بڑا بن گیا ہے، اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی اس کا فیض ویسے ہی عام کر دے، جیسے دہلی سے سید نذیر حسین رحمہ اللہ کا علم پوری دنیا میں پھیلا تھا۔ فرطِ جذبات میں کہنے لگے، زندگی کے پچاس سال گزر گئے ہیں، اللہ سے مزید پچاس سال مانگے ہیں، تاکہ اس مرکز اور لائبریری کا حق ادا کر سکوں!
اسی دوران آپ نے دو نصحیتیں فرمائی تھیں، جن پر میں نے الگ سے تحریر لکھی ہے، لیکن یہاں مختصرا عرض کر دیتا ہوں، شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا:
1۔ بیٹا اگر آپ یکسوئی سے کام کرنا چاہتے ہیں تو اپنا ادارہ بنالیں، کیونکہ آپ کسی کے ساتھ نہیں چل سکتے۔
2۔ ادارے کو وقف یا کسی کے نام کروانے کی بجائے اپنے نام رکھیں، تاکہ بعد میں آپ کو پریشانیاں نہ ہوں۔ کیونکہ اگر جگہ آپ کے اپنے نام ہو تو کوئی بھی جماعت یا ادارہ حتی کہ حکومت بھی اس پر قبضہ نہیں کر سکتی کیونکہ وہ آپ کی ذاتی ملکیت ہے، لیکن جب کوئی چیز وقف کر دی جاتی ہے تو وہ کسی بھی وقت کسی ادارے یا محکمے کی تحویل میں جا سکتا ہے۔

(5)
شیخ محترم کی شخصیت کے کچھ نمایاں پہلو

شیخ محترم علوم و فنون کی جامع شخصیت:
شیخ رحمہ اللہ کی وجہ شہرت مناظرہ، افتاء اور تحقیقِ حدیث وغیرہ تھی، لیکن آپ صرف مبلغ و مناظر اور بہترین مقرر ہی نہیں تھے، بلکہ اردو عربی کے بہترین لکھاری بھی تھے، اردو کی تحاریر و تصانیف تو سب جانتے ہیں، لیکن آپ کئی عربی میں بھی کئی ایک تحاریر ہیں، فضیلۃ الشیخ عبد الرحمن ضیاء حفظہ اللہ کی ایک عربی تصنیف ’التعريب المنادي إلى تفهيم الزرادي’ غالبا پندرہ بیس سال پہلے طبع ہوئی تو اس پر آپ نے بہترین عربی میں تقریظ لکھی تھی۔
شیخ محترم نحو و صرف وغیرہ میں بھی دسترس رکھتے تھے، مناظرے اور تقاریر میں عربی عبارات پڑھنے اور بعض دفعہ ان کے حل سے اس بات کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح آپ کے مناظروں سے آپ کی حاضر جوابی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
عصر حاضر میں بعض اہل علم اور ان کے شاگردوں کے ہاں تحقیقِ حدیث اور اسماء الرجال سے گہری دلچسپی پائی جاتی ہے ، لیکن اس پورے طبقے کے ہاں علومِ عربیت اور فقہ و اصولِ فقہ سے دلچسپی نہ ہونے کے برابر نظر آتی ہے، بلکہ بعض ایسے احباب بھی دیکھے جو اس باب میں لمبی چوڑی تحقیقات اور تحاریر لکھتے ہیں، لیکن عربی کی چند سطرین صحیح اعراب کے ساتھ پڑھنا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔
لیکن شیخ ربانی رحمہ اللہ میں اس قسم کے مسائل نہیں تھے۔

ہر وقت اہل علم کی خدمت کے لیے تیار:
شیخ رحمہ اللہ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ آپ ہر وقت، دن ہو یا رات طلبۃ العلم اور علمائے کرام کی خدمت کے لیے تیار رہتے تھے۔ جہاں کہیں مناظرے کی ضرورت پڑی پہنچ گئے، کسی کو کوئی حوالہ درکار ہوا تو فورا لبیک کہا، بلکہ ٹیلی وژن پر آنے والے بعض علمائے کرام نے خود اعتراف کیا کہ شیخ محترم ہر وقت ہم سے رابطے میں رہتے اور فرماتے کہ کسی بھی وقت میری ضرورت پڑی تو مجھے حاضر پائیں گے۔
شیخ کی اس دریا دلی اور علمی سخاوت کے سبب یقینا ان کی علمی و تدریسی روٹین بھی متاثر ہوتی ہوگی اور ان کی راحت و سکون میں بھی خلل آتا ہو گا، لیکن بہر صورت جس شخص نے خود کو خدمت کے لیے اس طرح وقف کر لیا ہو، پھر اس کے نزدیک شیڈولز اور راحت و سکون کی قربانی دینا لازم ہو جاتا ہے۔
لیکن اس کے باوجود شیخ رحمہ اللہ نے دو درجن کے قریب کتابیں تصنیف فرمائیں، اگر بعض اہلِ علم کی طرح شیڈول اور نظام الاوقات کی پابندی کرتے تو یقینا تصانیف تعداد اس سے بہت زیادہ ہوتی۔ لیکن بہرصورت معاشرے کو کسی ایسے عالم دین کی بھی ضرورت تھی جو رسمیات کی بجائے ہر عالم اور طالب علم کے لیے لبیک کہنے والا ہو، یقینا تمام علمائے اور طلبۃ العلم یہ گواہی دیں گے کہ شیخ رحمہ اللہ نے یہ کردار خوب نبھایا، بھلا انہیں اس کی جتنی بھی بڑی قیمت ادا کرنا پڑی۔

شیخ رحمہ اللہ اور جماعتی تعلقات:
شیخ ربانی رحمہ اللہ کے بارے میں معروف ہوا کہ وہ ایک جماعت سے منسلک تھے لیکن اس کے باوجود آپ یہ فرمایا کرتے تھے کہ عالم دین کسی ایک جماعت کی ملکیت نہیں ہوتا، بلکہ پورے مسلک کی مشترکہ میراث ہوتا ہے۔ لہذا آپ کی جتنی زندگی ہمارے سامنے ہے، وہ اسی کے مطابق تھی، ایک خاص جماعت سے تعلق ہونے کے باوجود آپ نے کبھی بھی جماعتی تعصب اور پارٹی باز کا اظہار نہیں کیا۔ جلسے جلوس، درس و تدریس وغیرہ تمام کاموں کے لیے آپ بلا تفریق جماعت جہاں ضرورت پڑتی، پہنچا کرتے تھے۔
بلکہ کئی بار جب جماعتی رنجشیں عروج پکڑتیں تو دونوں اطراف کو سمجھایا کرتے اور اتحاد واتفاق کا درس دیتے۔
جماعتوں نے جب خود کو سیاسی اور لبرل ظاہر کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کیے اور قائدین کی خواتین کے ساتھ تصویریں آنا شروع ہوئیں یا الیکشنز کمپینز اور منکرات کا ظہور شروع ہوا تو شیخ رحمہ اللہ نے منکر کو منکر ہی کہا، اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی کہ یہ میری جماعت ہے یا کوئی اور تنظیم!!

سوشل میڈیا اور شیخ محترم:
شیخ رحمہ اللہ ان اوائل علمائے کرام میں سے ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا وغیرہ کی افادیت کو بھانپتے ہوئے، اسے وقت دینا شروع کر دیا تھا۔ مجموعہ علمائے اہل حدیث کے نام سے ایک بڑا مشہور گروپ ہوا کرتا تھا، جس میں بعد میں پورے پاکستان سے کبار و صغار مشایخ، علمائے کرام اور طلبۃ العلم شریک ہوئے، سننے میں آیا تھا کہ شیخ ربانی رحمہ اللہ ان اوائل علمائے کرام میں سے ہیں جنہوں نے اس سلسلے کی حوصلہ افزائی فرمائی، میں جب اس میں شریک ہوا، تو شیخ ربانی رحمہ اللہ ان علماء میں سے ایک تھے، جو اس میں بہ کثرت شرکت فرمایا کرتے تھے۔
اسی طرح شیخ محترم فیس بک وغیرہ پر بھی مختلف ناموں سے موجود رہے، اپنے اصل نام کے علاوہ ابو الحسن الخیاط کے نام سے بھی ایک عرصہ تک موجود رہے۔
ایک بار ملاقات میں معلوم ہوا کہ شیخ محترم کو سوشل میڈیا پر جتنے سوالات وغیرہ آتے ہیں اور آپ ان کے وائسز میں جواب دیتے ہیں، وہ آپ کی سب سے چھوٹی اہلیہ کے پاس جمع ہو جاتے ہیں، جنہیں وہ تحریری شکل دیتی ہیں۔ (اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ علمی ذخیرہ کس حالت میں ہے؟)
واٹس ایپ گروپس میں آپ زیادہ متحرک تھے، لیکن فیس بک پر بھی کبھی کبھار بے لاگ تبصرہ فرما دیا کرتے تھے، جیسا کہ ایک بار آپ نے ایک جماعتی رہنما کے کالم پر تبصرہ فرمایا جو کافی مشہور ہوا۔
اسی طرح بعض جماعتوں نے جب سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا تو اس میں بھی شیخ محترم کا موقف واضح تھا۔
واٹس ایپ گروپس میں بعض دفعہ بحث و مباحثہ طول پکڑ جاتا ہے اور نوجوان آپس میں تو تکار کا شکار ہو جاتے ہیں، شیخ محترم اس پر بھی بعض دفعہ بڑے لطیف انداز میں تنبیہ فرمایا کرتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے چار پانچ سال پہلے ’حسن لغیرہ’ کی حجیت پر ایک گروپ میں بحث و مباحثہ ہو رہا تھا، ہمارے ایک ساتھی حسن لغیرہ کی حجیت کے قائلین پر طنز کرتے ہوئے کہنے لگے کہ آپ باطل فرقوں کو ہتھیار مہیا کر رہے ہیں .. وغیرہ۔
شیخ محترم انہیں مخاطب کرکے ایک خاص جملہ بولا، جس کا مطلب تھا کہ اتنی مبالغہ آرائی مناسب نہیں۔ کیونکہ شیخ رحمہ اللہ خود دیگر اہل علم کی طرح حسن لغیرہ کی حجیت کے قائل تھے۔
اسی طرح ہمارے ایک دوست جنہوں نے شیخ زبیر علی زئی صاحب کے نام لیکر شیخ البانی وغیرہ کی تحقیقات کا آپریشن شروع کر دیا اور اصول حدیث اور علم الرجال کے حوالے سے سطحی سے گفتگو شروع کر دی، انہوں نے شیخ زبیر صاحب کی تائید سے ایک کتاب بھی لکھی جس میں سلسلہ صحیحہ کی کئی ایک روایات کو ضعیف قرار دیا گیا تھا، شیخ ربانی رحمہ اللہ سے اس کی تقریظ لکھوائی، آپ نے کسی وجہ سے تقریظ تو لکھ دی، لیکن انداز اس قسم کا رکھا کہ وہ تقریظ ان کی حمایت و تائید کا کام نہ دے سکی۔ بعد میں وہ جب زیادہ ہی جری ہوئے اور پٹڑی سے مزید ہٹنا شروع ہوئے تو شیخ رحمہ اللہ نے پھر صراحتا کئی بار ان کی تردید اور حوصلہ شکنی کی۔ میری مراد ہمارے بھائی خرم شہزاد صاحب ہیں، جن کا تفصیلی رد محترم انور راشدی صاحب نے لکھا ہے جو کہ انٹرنیٹ پر موجود ہے۔

یہ چند منتشر خیالات اور یادیں تھیں، جنہیں ضائع ہونے کے ڈر سے تحریر کے قالب میں قید کرنے کی کوشش کی ہے، مزید کبھی موقع اور فرصت ملی تو ان میں حک و اضافہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ ان شاءاللہ۔
اللہ تعالی شیخ محترم ربانی رحمہ اللہ کی مغفرت فرمائے، ان کی خدمات، تلامذہ اور اولاد کو ان کے لیے بہترین صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔