یونیورسٹی میں تمام طلباء لڑکے ہوں یا لڑکیاں سب میچور ہوتے ہیں. اچھے برے اور نفع و نقصان کا فرق بخوبی جانتے ہیں. اس لیول پر کوئی ایک دوسرے کو تنگ نہیں کرتا. یہاں جو بھی کپل یعنی کے جوڑا بنتا ہے وہ دونوں کی باہمی رضامندی سے بنتا ہے.
دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کچھ وقت گزار کر دو تین جوس کارنر پر جوس پینے اور کچھ ہوٹلوں پر کھانا کھانے کے بعد ہی ایک دوسرے کو اپنا سب کچھ سونپ دیتے ہیں.یہاں آغاز ہمیشہ دوستی کی آڑ میں ہوتا ہے کیونکہ یہاں دونوں ہی سمجھتے ہیں کہ دوستی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

لیکن ایک حقیقت یہ ہے کہ دو مخالف جنس اچھے دوست بھی ہوں تو بھی زندگی کے کسی نا کسی موڑ پر ایک دوسرے کو کشش کرتے ہیں۔ یہاں پر کچھ لوگ مضبوط ہوتے ہیں اور اپنے آپ پر قابو رکھتے ہوئے صاف رشتہ رکھ کر آگے چلتے ہیں مگر یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ زیادہ تر جوڑے جسمانی تعلقات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔یونیورسٹی لیول پر کوئی کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کرتا یہاں سب کچھ دونوں فریقین کی باہمی رضامندی سے ہوتا ہے۔

آپ لاہور، فیصل آباد، اسلام آباد، کراچی، ملتان اور بہاولپور جیسے بڑے بڑے شہروں کے ریسٹورنٹ، گیسٹ ہاوس اور ہوٹلوں کا اگر رات کے کسی پہر وزٹ کریں تو معلوم ہوگا یہاں پر موجود نوجوان جوڑوں میں سے اسی فیصد سے بھی زیادہ کا تعلق شہر کی مختلف یونیورسٹیوں، میڈیکل کالجوں سے ہے۔آپ مختلف پیزا شاپ، جوس کارنر کا وزٹ کریں تو آپ کو یہاں یونیورسٹی کی کلاسز بند کر کے ڈیٹ پر آنے والے نوجوان جوڑوں کا ایک جم غفیر ملے گا۔اور پچاس روپے والا جوس کا گلاس آپ کو 200 روپے کا ملتا ہے, تیس منٹ تک کوئی پوچھنے نہیں آتا, تیس منٹ بعد آپ کو ایک اور آرڈر کرنا پڑتا ہے.یہاں اندر کرسیوں کی جگہ صوفے لگے ہوتے ہیں یعنی کے پورا ماحول بنا ہوتا ہے,آپ جو مرضی چاہیں کر سکتے ہیں۔

تو یہ کہنا کہ یونیورسٹی لیول پر لڑکیوں کو جنسی زیادتی یا درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے سراسر غلط ہے۔ یہاں نوجوان کپل شادی شدہ جوڑوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور پوری کلاس بلکہ پورے ڈیپارٹمنٹ کو خبر ہوتی ہے کہ کونسے والی کس کی ہے اور کونسے والا کس کا ہے؟ آپ ان بڑے شہروں میں اگر شاپنگ مالز کا وزٹ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ نوجوان جوڑے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر یا کمر اور کاندھے پر ہاتھ رکھ کر خریداری کرنے نکلے ہوں گے, جن میں زیادہ تر کا تعلق اس شہر کی مختلف یونیورسٹیوں سے ہوگا۔ پارک میں جائیں تو آپ کو بہت ساری تتلیاں کچھ پروانوں کے ساتھ چپک کر یا یہ کہہ لیں کہ ان کی گود میں بیٹھی ملیں گی۔

آپ یونیورسٹیوں کا اگر وزٹ کریں تو آپ کو رات کو گرلز ہاسٹل اور بوائز ہاسٹل سے بہت سارے لڑکے اور لڑکیاں غیر حاضر ملیں گے۔ ان سب کے گھر پر کال کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ تو یونیورسٹی میں ہیں.آپ مختلف ہوٹلوں اور گیسٹ ہاوس کا وزٹ کریں تو آپ کو ان میں سے زیادہ تر یہاں پر ملیں گے. جن لڑکوں یا لڑکیوں کا تعلق اسی شہر سے ہے تو بھی پریشانی کی بات نہیں ہے.آپ کو شہر میں ایسے بہت سارے ہوٹل ملیں گے جو صبح 8 بجے سے ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے کیلئے نوجوان جوڑوں کو کمرے کرایہ پر دیتے ہیں۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارے ہوٹل بنے ہی اسی کام کیلئے ہیں اور سونے پر سہاگہ کہ ان سارے ہوٹلوں کو بڑے بڑے پولیس افسران، بیورو کریٹ یا پھر سیاستدانوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ہر ہفتے یا مہینے کی بنیاد پر بھاری رقوم کی صورت میں بھتہ وصول کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سب کام آسانی سے ہو رہا ہے.اگر کبھی میڈیا کا دباؤ یا پھر کوئی بڑی مخبری ہو بھی تو ان ہوٹل والوں کو پہلے سے ہی آگاہ کر دیا جاتا ہے.

پنجاب یونیورسٹی میں اپنی آنکھوں سے میں لڑکیوں کو آگے بیٹھ کر موٹر سائیکل چلاتے ہوئے دیکھ چکا ہوں اور لڑکے پیچھے بیٹھ کر ان تتلیوں کو موٹر سائیکل چلانا سکھا رہے ہوتے ہیں.پنجاب یونیورسٹی اور خاص طور پر قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں آپ کو لڑکیاں چھوٹی چھوٹی شرٹس اور بہت باریک لباس پہنے اور چھوٹے چھوٹے ٹراوزر پہنے نظر آئیں گی.دوپٹہ برائے نام ہوتا ہے یا پھر ہوتا ہی نہیں.اتنے باریک باریک لباس ہوتے ہیں کہ جسم سارے کا سارا آویزاں ہو رہا ہوتا ہے اور باریک کپڑوں میں جسم کے اعضا صاف جھلک رہے ہوتے ہیں.

میں نے اپنی ان آنکھوں سے بہت سی خواتین کو حجاب میں یونیورسٹی آتے دیکھا ہے اور پھر ایک طرف ٹھہر کر یہ حجاب اپنے پرس میں ڈال کر پرس سے ایک چھوٹا سا باریک دوپٹہ گلے میں ڈال کر اپنی اپنی کلاسز میں جاتے دیکھا ہے.پھر جب چھٹی کے وقت باپ یا بھائی کے آنے کا وقت ہوتا ہے تو پھر سے وہی حجاب پرس سے نکال کر پہن لیا جاتا ہے.مجھے آج تک سمجھ نہیں لگی کہ یہ tights اور اوپر سے چھوٹی چھوٹی باریک شرٹس پہننے کا آخر مقصد کیا ہوتا ہے۔ آ بیل مجھے مار؟
اتنی چھوٹی چھوٹی سی شرٹس پہننا اور پھر چلتے ہوئے بار بار پیچھے سے اپنی شرٹس کو درست کرنا.کیسا عمل ہے؟کیا ضرورت ہے؟یا تو پہنیں نہ, پہن لیا تو بس پھر ٹھیک ہے.کیونکہ آپ کا جسم آپ کی مرضی. پھر مرد کیوں نہ کہے کہ میری آنکھ میری مرضی؟

لیکن یہ سب فیشن ہے.یہاں پر فقرے کسنا جرم نہیں کیونکہ کھلم کھلا دعوت دی جاتی ہے فقرے کسنے کی.میوزک کنسرٹ، کلچرل فیسٹیول، اور اینول ڈنر کے نام پر ہونے والے رقص، مجرے کی محفلوں سے کم نہیں.میوزک کنسرٹ پر جسم کے ساتھ جسم لگے ہوتے ہیں اور ناچ گانے عروج پر کندھے سے کندھے جڑے ہوتے ہیں.منشیات کا سب سے زیادہ استعمال بھی یونیورسٹی کے طلباء ہی کرتے ہیں. جن منشیات کا کبھی آپ نے نام تک نہیں سنا ہوگا وہ منشیات یونیورسٹی لیول پر آپ کو نظر آتی ہیں.

لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں بھی ان منشیات کی عادی ہیں اور یہ بھی کسی فیشن کی طرح پروان چڑھ رہا ہے.لڑکیوں کے ہاسٹل میں یہ منشیات انتظامیہ کے زریعے سے ہی فروخت کی جاتی ہیں اور بہت سے گروہ اپنے سہولت کار ان طالبات میں سے ہی چنتے ہیں.پہلے نشے کا عادی بنایا جاتا ہے اور پھر جسم فروشی کے مقاصد کیلئے ان لڑکیوں کا استعمال کیا جاتا ہے.دونوں ایک دوسرے کو غلط کہہ رہے ہیں خواتین کے مطابق مرد حضرات اپنی نظروں کی حفاظت کریں اور مردوں کے مطابق خواتین اپنے جسم کی حفاظت کریں۔

مگر دونوں میں سے کوئی بھی اپنی اصلاح کرنے کیلئے تیار نہیں کوئی بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے.یہ ہسپتالوں اور کچرے کے ڈھیر میں ملنے والے نومولود بچے طوائف کے نہیں بلکہ ان تعلیم یافتہ افراد کے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہماری آپس میں انڈرسٹینڈنگ تھی.ہسپتالوں میں غیر قانونی طور پر ہونے والے ابورشن اسی انڈرسٹینڈنگ کے نتائج ہیں.نان پریگننسی ادویات کے خریدار زیادہ تر یہی انڈرسٹینڈنگ والے جوڑے ہیں۔

لیکن اگر یہاں کوئی سچ لکھے یا بولے تو وہ چھوٹی سوچ کا مالک ہے وہ تنگ نظر ہے وہ دیہاتی ہے. پھر میں کیوں نہ کہوں کہ ہماری یونیورسٹیاں کوٹھے اور چکلے ہیں.پھر میں کیوں نہ کہوں کہ یہ یونیورسٹیاں اور یہ تعلیمی ادارے جسموں کی تجارت کی منڈیاں ہیں.پھر میں کیوں نہ کہوں کہ یہاں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی جسمانی تعلقات اور زنا کو فروغ دے کر والدین کی عزتوں کے جنازے نکال رہے ہیں.

یونیورسٹی کا مطلب “مادرِ علمی ہے”یہ کیسی ماں ہے جو اپنی بچیوں کے سر سے دوپٹہ اور جسم سے لباس اتارنے کی تربیت کو پروان چڑھا رہی ہے.یہ کیسی ماں ہے جو اپنے بیٹوں کو بے حیائی اور زنا کی تعلیم دے رہی ہے؟بلکہ یہ یونیورسٹیاں شاید طوائف کے کوٹھوں سے بھی زیادہ گری ہوئی جگہ ہیں کیونکہ ایک طوائف اپنی مجبوری کے تحت اپنا جسم فروخت کرتی ہے اور اس کے پاس آنے والے گاہک پیسے دے کر اس کا جسم خریدتے ہیں۔
مگر ہماری یونیورسٹیاں وہ کوٹھے اور وہ اڈے ہیں جہاں عورت اپنا جسم اپنی مرضی سے اپنی پسند کے شخص کو خوشی خوشی پیش کرتی ہےاور یہاں جسم لینے والا کوئی خریدار نہیں ہے وہ ایسا گاہک ہے جسے مفت میں شراب اور شباب مل رہی ہوتی ہے۔ جب اپنا جسم اپنی مرضی سے پیش کیا جائے اور لینے والا عورت کی مرضی سے اس کا جسم لے تو پھر نہ تو عورت اسے جنسی زیادتی یا درندگی کا نام دیتی ہے اور نہ ہی مرد اسے جنسی زیادتی اور درندگی کا نام دیتا ہے۔
یہاں اس فیشن کو “انڈرسٹینڈنگ” کا نام دیا جاتا ہے۔

اس سارے فسادات کی جڑ یہ Co-education ہے۔ ہمارا دین اسی وجہ سے اس نظام تعلیم کی مخالفت کرتا ہے یہ نظام تعلیم ہماری نسلوں کو اُجاڑ رہا ہے۔تباہ کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آج کے جوان پڑھے لکھے جاہل کے لقب سے نوازے جا رہے ہیں.یہ یونیورسٹیاں تعلیم، علم، تربیت، تہزیب ،ادب، شعور کچھ بھی نہیں دے رہیں بلکہ جو تھوڑا بہت ان سب کا تناسب موجود ہوتا ہے وہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ہماری یونیورسٹیاں فقط کاغذ کے ٹکڑے دے رہی ہیں.. غلامی کی سوچ اور سرکاری نوکری کے خواب عنایت کر رہی ہیں لالچ اور حسد عنایت کر رہی ہیں۔ ہمیں اس بارے میں سوچنا ہوگا۔

انفرادی طور پر اصلاح اور کوشش کرنی ہوگی تب جا کر اجتماعی طور پر چیزیں درست ہو سکتی ہیں۔تلخ لکھنے پر معذرت خواہ ہوں مگر جو بھی لکھا سچ لکھا ہے. اور سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے
آمین ثم آمین

کامـــران الہـــی ظہیر