سوال

ایک آدمی نے کسی کو کاروبار کے لیے چھ لاکھ روپے دیے۔جس کو چھ لاکھ روپے دیے اس سے ساٹھ ہزار روپیہ ہرماہ وصول کرتا ہے۔ایک ماہ اس نے کہا پچاس ہزار لے لو، تو وہ واپس چھوڑ کر چلا گیا۔ اس نے کہا مجھے ساٹھ ہزار روپے دو ،یہ سارا معاملہ میرے سامنے پیش آیا۔ یہ سودی کاروبار میں آتا ہے یا کمیشن میں۔ہر ماہ60ہزار لینے والا کہتا ہے یہ جائز ہے اور اس کو سود نہیں بلکہ کمیشن کہتے ہیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

کاروبار کی یہ شکل صراحتا سود ہے۔کیونکہ 6 لاکھ روپیہ دے کر 10 فیصد کے اعتبار سے، ہر ماہ 60 ہزار روپیہ وصول کرتا ہے،  تو یہ  پیسے کے بدلے پیسہ وصول کر رہا ہے۔کیونکہ اگر کاروبار ہوتا تو پھر کاروبار میں تو پرافٹ میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔لیکن صورت مسؤلہ میں تو پرافٹ  طے ہے۔ ایسا کرنا صراحتا سود ہے۔

یہی وجہ ہے جب وہ 50 ہزار روپیہ دیتا ہے، تو وہ واپس کر دیتا ہے کہ مجھے تو 60 ہزار چاہیے۔ بہرصورت ایسا کرنا ہی جائز نہیں ، بلکہ یہ واضح طور پر بینک کے سود والی صورت ہے۔ اس میں رقم جمع کراتے ہوئے، وہ چھے، سات فیصد یا کم وبیش، ایک طے شدہ پرافٹ کا معاہدہ کرلیتے ہیں، جو کہ واضح اور کھلا سود ہے۔

اگر انہوں نے واقعتا کاروبار کرنا ہے، تو  پرافٹ کی شرح طے کر لی جائے، اور   نفع و نقصان میں دونوں برابر کے شریک ہوں، تو پھر یہ جائز ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ