رسول اکرم ﷺ اور اصحابہ ؓ  کا حسنین کریمینؓ سے محبت

جسطرح صحابہ کرامؓ سے عقیدت ومحبت ضروری بلکہ ایمان کا حصہ ہے بلکل اسیطرح اہل بیت کے چشم و چراغ،حضرت علیؓ کے گھر کی رونق،حضرت فاطمہؓ کے نور نظر، نبی ﷺ کے دنیاوی پھول اور اسلام کے شہزادے حسنین کریمینؓ سے بھی محبت و عقیدت رکھنا ضروری بلکہ سنتِ رسول ﷺ ہے۔
اسی لئے ان سے محبت و عقیدت کا اظہار کرنا بلکل اسی طرح ہی قابل قبول ہوگا جیسے رسول اللہ ﷺ اور آپکے صحابہؓ کرتے رہے ہیں ۔
ورنہ جیسے آج کل لوگ پیدائش اور وفات کے ایام میں اپنی اپنی مرضی کا طریقہ نکال کر محبت کے چیمپئن بنتے ہیں یہ صرف اور صرف موسمی محبت اور وہ بھی جھوٹی ہے حقیقی محبت وہ ہے جیسے رسول اللہ ﷺ اور آپکے اصحابؓ کرتے رہے ہیں۔

1: نبی اکرم ﷺ کے محبت کا انداز

اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں:

طَرَقْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي بَعْضِ الْحَاجَةِ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُشْتَمِلٌ عَلَى شَيْءٍ لَا أَدْرِي مَا هُوَ، فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْ حَاجَتِي، قُلْتُ: مَا هَذَا الَّذِي أَنْتَ مُشْتَمِلٌ عَلَيْهِ؟ قَالَ: فَكَشَفَهُ فَإِذَا حَسَنٌ , وَحُسَيْنٌ عَلَى وَرِكَيْهِ
, فَقَالَ: ” هَذَانِ ابْنَايَ وَابْنَا ابْنَتِيَ، اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا، فَأَحِبَّهُمَا، وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُمَا “.

میں ایک رات کسی ضرورت سے نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آپﷺ گھر سے نکلے ایک ایسی چیز لپیٹے ہوئے جسے میں نہیں جان پا رہا تھا کہ کیا ہے، پھر جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوا تو میں نے عرض کیا: یہ کیا ہے جس کو آپ لپیٹے ہوئے ہیں؟ تو آپ نے اسے کھولا تو وہ حسن اور حسین ؓ تھے، جو آپﷺ کے کولہے سے چپکے ہوئے تھے، پھر آپ نے فرمایا:
”یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں، اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر جو ان سے محبت کرے“۔ (جامع ترمذی 3769,)

2: رسول اکرم ﷺ کا حسنین کریمینؓ کا بوسہ لینا

حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

قَبَّلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ وَعِنْدَهُ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ التَّمِيمِيُّ جَالِسًا، فَقَالَ الْأَقْرَعُ: إِنَّ لِي عَشَرَةً مِنَ الْوَلَدِ مَا قَبَّلْتُ مِنْهُمْ أَحَدًا، فَنَظَرَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ:” مَنْ لَا يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ

رسول اللہﷺ نے حسن بن علیؓ کو بوسہ دیا۔ نبی کریمﷺ کے پاس اقرع بن حابسؓ بیٹھے ہوئے تھے۔
اقرع رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ میرے دس لڑکے ہیں اور میں نے ان میں سے کسی کو بوسہ نہیں دیا۔
نبی کریمﷺ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ جو( اللہ کی مخلوق پر) رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔( بخاری 5997)

3: رسولِ اکرم ﷺ نے حسنینؓ کیلئے خطبہ جمعہ کاٹ دینا

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ فَجَاءَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , وَعَلَيْهِمَا قَمِيصَانِ أَحْمَرَانِ يَعْثُرَانِ فِيهِمَا، فَنَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَطَعَ كَلَامَهُ , فَحَمَلَهُمَا ثُمَّ عَادَ إِلَى الْمِنْبَرِ، ثُمَّ قَالَ:” صَدَقَ اللَّهُ إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ سورة التغابن آية 15 , رَأَيْتُ هَذَيْنِ يَعْثُرَانِ فِي قَمِيصَيْهِمَا، فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قَطَعْتُ كَلَامِي فَحَمَلْتُهُمَا”.

نبی اکرم ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ اتنے میں حسن اور حسینؓ لال رنگ کی قمیص پہنے گرتے پڑتے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم (منبر سے) اتر پڑے، اور اپنی بات درمیان ہی میں کاٹ دی، اور ان دونوں کو گود میں اٹھا لیا، پھر منبر پر واپس آ گئے، تو فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے سچ کہا ہے

«إنما أموالكم وأولادكم فتنة»

”تمہارے مال اور اولاد فتنہ ہیں“ میں نے ان دونوں کو ان کی قمیصوں میں گرتے پڑتے آتے دیکھا تو میں صبر نہ کر سکا یہاں تک کہ میں نے اپنی گفتگو درمیان ہی میں کاٹ دی، اور ان دونوں کو اٹھا لیا“۔ (نسائی 1414)
رسولِ اکرم ﷺ کا حسنین کریمینؓ کیلئے سجدہ لمبا کردینا

حضرت شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِحْدَى صَلَاتَيِ الْعِشَاءِ وَهُوَ حَامِلٌ حَسَنًا أَوْ حُسَيْنًا فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَهُ، ثُمَّ كَبَّرَ لِلصَّلَاةِ فَصَلَّى فَسَجَدَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ صَلَاتِهِ سَجْدَةً أَطَالَهَا قَالَ: أَبِي فَرَفَعْتُ رَأْسِي وَإِذَا الصَّبِيُّ عَلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ سَاجِدٌ فَرَجَعْتُ إِلَى سُجُودِي فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ قَالَ النَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ سَجَدْتَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ صَلَاتِكَ سَجْدَةً أَطَلْتَهَا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ أَوْ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْكَ قَالَ:” كُلُّ ذَلِكَ لَمْ يَكُنْ وَلَكِنَّ ابْنِي ارْتَحَلَنِي فَكَرِهْتُ أَنْ أُعَجِّلَهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ”.

رسول اللہ ﷺ مغرب اور عشاء کی دونوں نمازوں میں سے کسی ایک نماز کے لیے نکلے، اور حسنؓ یا حسینؓ کو اٹھائے ہوئے تھے، جب آپ نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے تو انہیں (زمین پر) بٹھا دیا، پھر آپ نے نماز کے لیے تکبیر تحریمہ کہی، اور نماز شروع کر دی، اور اپنی نماز کے دوران آپ نے ایک سجدہ لمبا کر دیا، تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بچہ رسول اللہ ﷺ کی پیٹھ پر ہے، اور آپ سجدے میں ہیں، پھر میں اپنے سجدے کی طرف دوبارہ پلٹ گیا، جب رسول اللہ ﷺ نے نماز پوری کر لی تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے نماز کے درمیان ایک سجدہ اتنا لمبا کر دیا کہ ہم نے سمجھا کوئی معاملہ پیش آ گیا ہے، یا آپ پر وحی نازل ہونے لگی ہے،
آپ ﷺ نے فرمایا: ”ان میں سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی، البتہ میرے بیٹے نے مجھے سواری بنا لی تھی تو مجھے ناگوار لگا کہ میں جلدی کروں یہاں تک کہ وہ اپنی خواہش پوری کر لے“۔(1142)

صحابہ کرامؓ کا حسنین کریمینؓ سے محبت کا انداز

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حسنینؓ رضی اللہ عنھما سے محبت۔
عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

صَلَّى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْعَصْرَ ثُمَّ خَرَجَ يَمْشِي فَرَأَى الْحَسَنَ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَحَمَلَهُ عَلَى عَاتِقِهِ وَقَالَ بِأَبِي شَبِيهٌ بِالنَّبِيِّ لَا شَبِيهٌ بِعَلِيٍّ وَعَلِيٌّ يَضْحَكُ

حضرت ابوبکرؓ عصر کی نماز سے فارغ ہوکر مسجد سے باہر نکلے تو دیکھا کہ حضرت حسنؓ بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔ حضرت صدیقؓ نے ان کو اپنے کندھے پر بٹھا لیا اور فرمایا : میرے باپ تم پر قربان ہوں تم میں نبی کریمﷺ کی شباہت ہے ۔ علی کی نہیں ۔ یہ سن کر حضرت علی ہنس رہے تھے۔(بخاری3542)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حسنین کریمینؓ سے محبت

امام ابن عساکرؒ نقل کرتے ہیں:

ﺃﻥ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ اﻟﺨﻄﺎﺏ ﻟﻤﺎ ﺩﻭﻥ اﻟﺪﻳﻮاﻥ ﻭﻓﺮﺽ اﻟﻌﻄﺎء اﻟﺤﻖ اﻟﺤﺴﻦ ﻭاﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻔﺮﻳﻀﺔ اﺑﻴﻬﻤﺎ ﻣﻊ ﺃﻫﻞ ﺑﺪﺭ ﻟﻘﺮاﺑﺘﻬﻤﺎ ﻣﻦ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ (ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ) ﻓﻔﺮﺽ ﻟﻜﻞ ﻭاﺣﺪ ﻣﻨﻬﻤﺎ ﺧﻤﺴﺔ ﺁﻻﻑ ﺩﺭﻫﻢ.

جب عمر ؓ نے دفاتر ترتیب دہے اور تحائف مقرر کیں تو حسن وحسین ؓ کو انکے والد کے ساتھ ہی اہل بدر میں سے حصہ مقرر کیا،رسول اللہ ﷺ سے قرابت کی وجہ سے۔
تو ان دونوں کیلئے پانچ پانچ ہزار درہم مقرر کیے گئے
(تاريخ دمشق: 238/13)

سعيد بن ابو سعید المقبری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
ایک مرتبہ حسن بن علیؓ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہمیں سلام کیا، پس ہم نے آپ کے سلام کا جواب دیا۔ لیکن ابوہریرہؓ کو آپ کی آمد یا سلام کا علم نہیں ہو سکا۔
ہم نے بتایا کہ اے ابوہریرہ! یہ حسن بن علیؓ آئے ہیں اور انہوں نے ہم پر سلام کیا ہے۔
تو آپؓ ان کے پاس گئے اور کہا:

ﻭَﻋَﻠَﻴْﻚَ اﻟﺴَّﻼَﻡُ ﻳَﺎ ﺳﻴﺪي، ﺛُﻢَّ ﻗَﺎﻝَ: ﺳَﻤِﻌْﺖُ ﺭَﺳُﻮﻝَ اﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ اﻟﻠﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻳَﻘُﻮﻝُ: ﺇﻧﻪ ﺳﻴﺪ.

آپ پر بھی سلامتی ہو! اے میرے سردار ۔
کیوں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: یہ سردار ہیں۔
(مستدرک حاکم: 4792)

ایک بار سیدنا ابوہریرہؓ حضرت حسن بن علیؓ سے ملے تو ان سے کہا:

ﺭَﺃَﻳْﺖُ ﺭَﺳُﻮﻝَ اﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ اﻟﻠﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻗَﺒَّﻞَ ﺑﻄﻨﻚ ، ﻓَﺎﻛْﺸِﻒِ اﻟْﻤَﻮْﺿِﻊَ اﻟَّﺬِﻱ ﻗَﺒَّﻞَ ﺭَﺳُﻮﻝُ اﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ اﻟﻠﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﺣَﺘَّﻰ ﺃُﻗَﺒِّﻠَﻪُ، ﻗَﺎﻝَ: ﻭَﻛَﺸَﻒَ ﻟَﻪُ اﻟْﺤَﺴَﻦُ ﻓَﻘَﺒَّﻠَﻪُ.

ایک بار میں نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کے پیٹ پر بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے، آپ میرے لیے اس حصے کو ظاہر کریں جہاں سے رسول اللہ ﷺ نے بوسہ دیا ہے ۔ تاکہ میں بھی وہاں سے بوسہ لوں۔
چنانچہ آپؓ نے وہ حصہ ظاہر کیا اور ابوہریرہ ؓ نے وہاں کا بوسہ لیا۔
(مستدرک حاکم: 4785)
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سُوقٍ مِنْ أَسْوَاقِ الْمَدِينَةِ فَانْصَرَفَ فَانْصَرَفْتُ، فَقَالَ:” أَيْنَ لُكَعُ ثَلَاثًا، ادْعُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ”، فَقَامَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ يَمْشِي وَفِي عُنُقِهِ السِّخَابُ،
فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ هَكَذَا، فَقَالَ الْحَسَنُ: بِيَدِهِ هَكَذَا فَالْتَزَمَهُ، فَقَالَ:”
اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُ”،
وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ، فَمَا كَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، بَعْدَ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ.

میں مدینہ کے بازاروں میں سے ایک بازار میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ تھا۔ نبی کریم ﷺ واپس ہوئے تو میں بھی آپ کے ساتھ واپس ہوا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا بچہ کہاں ہے۔ یہ آپ نے تین مرتبہ فرمایا۔ حسن بن علیؓ کو بلاؤ۔ حسن بن علی ؓ آ رہے تھے اور ان کی گردن میں ہار پڑا تھا۔
نبی کریمﷺ نے اپنا ہاتھ اس طرح پھیلایا اور حسن ؓ نے بھی اپنا ہاتھ پھیلایا اور وہ نبی کریم ﷺ سے لپٹ گئے۔
پھر آپ ﷺ نے فرمایا، اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر اور ان سے بھی محبت کر جو اس سے محبت رکھیں۔
ابوہریرهؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد کے بعد کوئی شخص بھی حسن بن علىؓ سے زیادہ مجھے پیارا نہیں تھا۔(بخاری 5884)

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا حسین سے پیار

حضرت عمرو بن العاص ؓ نے ایک بار حسین بن علیؓ کو آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:
ھﺬا ﺃﺣﺐ ﺃﻫﻞ اﻷﺭﺽ ﺇﻟﻰ ﺃﻫﻞ اﻟﺴﻤﺎء اﻟﻴﻮﻡ.
یہ شخص آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔
(تاریخ دمشق: 179/14)

جابر رضی اللہ عنہ کا حسین رضی اللہ عنہ سے پیار

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

ﻣَﻦْ ﺳَﺮَّﻩُ ﺃَﻥْ ﻳَﻨْﻈُﺮَ ﺇِﻟَﻰ ﺭَﺟُﻞٍ ﻣِﻦْ ﺃَﻫْﻞِ اﻟْﺠَﻨَّﺔِ، ﻓَﻠْﻴَﻨْﻈُﺮْ ﺇِﻟَﻰ اﻟْﺤُﺴَﻴْﻦِ ﺑْﻦِ ﻋَﻠِﻲٍّ” ﻓَﺈِﻧِّﻲ ﺳَﻤِﻌْﺖُ ﺭَﺳُﻮﻝَ اﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ اﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻳﻘﻮﻟﻪ.

جس کو اس بات سے خوشی ہو کہ وہ جنتی آدمی دیکھے تو وہ حسین بن علیؓ کو دیکھ لے کیوں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو انہیں جنتی کہتے سنا ہے۔
(صحيح ابن حبان: 6966)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا حسین رضی اللہ عنہ سے پیار
ابن ابی نعیمؒ فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرؓ سے سنا:

وَسَأَلَهُ عَنِ الْمُحْرِمِ، قَالَ شُعْبَةُ: أَحْسِبُهُ يَقْتُلُ الذُّبَابَ، فَقَالَ: أَهْلُ الْعِرَاقِ يَسْأَلُونَ عَنِ الذُّبَابِ وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ ابْنَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا”.

کہ کسی نے ان سے محرم کے بارے میں پوچھا تھا، شعبہ نے بیان کیا کہ میرے خیال میں یہ پوچھا تھا کہ اگر کوئی شخص (احرام کی حالت میں) مکھی مار دے تو اسے کیا کفارہ دینا پڑے گا؟ اس پر عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا: عراق کے لوگ مکھی کے بارے میں سوال کرتے ہیں جب کہ یہی لوگ رسول اللہ ﷺ کے نواسے کو قتل کر چکے ہیں، جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ دونوں (نواسے حسن و حسین رضی اللہ عنہما) دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ [صحيح البخاري حدیث: 3753]

اہل حدیث کی حسنین کریمینؓ سے محبت

لوگ آج طرح طرح کی غلط فہمیاں ڈال کر لوگوں کو متنفر کرتے ہیں کہ یہ لوگ اہل بیت سے محبت نہیں کرتے۔ العیاذ باللہ
جبکہ اہل حدیث کی محبت یہ ہے کہ وہ ہر روز نماز عشاء کے بعد اپنے وتروں میں وہ ہی دعا کرتے ہیں جو نواسہ رسول ﷺکیا کرتے تھے۔
اور یہ ایک ایسی دعا ہے کہ شائید ہی اہل حدیث کے علاؤہ کسی دوسرے کو یاد ہو خواہ کوئی بڑا عالم ہی کیوں نہ ہو۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلِمَاتٍ أَقُولُهُنَّ فِي الْوِتْرِ، قَالَ ابْنُ جَوَّاسٍ: فِي قُنُوتِ الْوِتْرِ،” اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ إِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، وَلَا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ”.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند کلمات سکھائے جنہیں میں وتر میں کہا کرتا ہوں۔
”اے اللہ! مجھے ہدایت دے ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کو تو نے ہدایت دی ہے اور مجھے عافیت دے ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کو تو نے عافیت دی ہے اور میری کارسازی فرما ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کی تو نے کارسازی کی ہے اور مجھے میرے لیے اس چیز میں برکت دے جو تو نے عطا کی ہے اور مجھے اس چیز کی برائی سے بچا جو تو نے مقدر کی ہے، تو فیصلہ کرتا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جسے تو دوست رکھے وہ ذلیل نہیں ہو سکتا اور جس سے تو دشمنی رکھے وہ عزت نہیں پا سکتا، اے ہمارے رب تو بابرکت اور بلند و بالا ہے“۔ (ابوداؤد 1425)

اسی طرح اہل حدیث اپنے بچوں کو نظر بد کا دم کرنا ہو یا اللہ کی پناہ میں دینا ہو تو آج بھی وہ دعا پڑھ کر دم کرتے ہیں جو دعا رسول اللہ ﷺ پڑھ کر حسنین کریمینؓ کو پناہ میں دیا کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَوِّذُ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ يَقُولُ أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ وَيَقُولُ هَكَذَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يُعَوِّذُ إِسْحَقَ وَإِسْمَعِيلَ عَلَيْهِمْ السَّلَام

اللہ کے رسول حسن و حسین رضی اللہ عنہما پریہ کلمات پڑھ کر اللہ کی پناہ میں دیتے تھے :

‘أُعِیذُکُمَا بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَہَامَّۃٍ وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لاَمَّۃٍ’

میں تمہارے لیے اللہ کے مکمل اورپورے کلمات کے وسیلے سے ہرشیطان اورہلاک کرنے والے زہریلے کیڑے اور نظر بد سے پناہ مانگتاہوں،
اورآپ فرماتے تھے:
ابراھیم علىه السلام بھی اسی طرح اسماعیل اور اسحاق علیھم السلام کو اللہ کی پناہ میں دیا کرتے تھے۔ (جامع ترمذی 2060)

اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا ایمان نصیب فرمائے جس میں اصحاب رسول اور اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایسی محبت ہو جو قیامت والے دن ہمارے لئے ذریعہ نجات بنے (آمین ثم آمین)

تحریر: ابو محمد اویس قرنی

یہ بھی پڑھیں: محرم الحرام میں علمائے کے بیانات کا خلاصہ