سوال

عورت نماز میں شامل ہو اور امام کی غلطی پر مردوں میں سے کوئی لقمہ دینے والا نہ ہو یا ان کی توجہ نہ ہو  تو عورت کے لیے لقمہ دینے کا طریقہ کیا ہو گا؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

امام اگر قراءت قرآن کریم میں غلطی کرے، تو اسے لقمہ دینا جائز ہے۔ مُسَوَّرِ بن يَزيد المَالِكِي رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

«شَهِدْتُ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَقْرَأُ فِي الصَّلَاةِ فَتَرَكَ شَيْئًا لَمْ يَقْرَأْهُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ تَرَكْتَ آيَةَ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: هَلَّا أَذْكَرْتَنِيهَا». [سنن أبي داود:907 وحسنه الألباني وغيره، وانظر: فضل الرحيم الودود:10/30]

’میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک ہوا، دورانِ قراءت آپ نے کوئی آیت چھوڑ دی تو بعد میں ایک آدمی نے آپ سے عرض کی کہ اللہ کے رسول اللہ علیہ وسلم آپ نے فلاں فلاں آیات چھوڑ دی ہیں! آپ نے فرمایا: کہ آپ نے مجھے یاد کیوں نہیں کروایا تھا؟’۔

بعض روایات میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ اس صحابی نے کہا کہ میں نے سمجھا ہے کہ شاید وہ آیات منسوخ ہو گئی ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔

قراءت کی غلطی میں جس طرح مردوں کے لیے امام کو لقمہ دینا جائز ہے، اسی طرح خواتین بھی غلطی کی تصحیح کر سکتی ہیں۔ جس حدیث میں یہ فرمایا گیا  ہے کہ عورتیں صرف تالی بجا کر متنبہ فرمائیں، اس سے مراد قراءت کی غلطی نہیں، بلکہ دیگر افعال و ارکان کی غلطی ہے، اگر قراءت کی غلطی پر  بھی اسے منطبق کیا جائے تو پھر تو مردوں کے لیے بھی غلطی  بتانے کی بجائے سبحان اللہ کہنا ہوگا، حالانکہ یہ درست نہیں۔

امام شوکانی رحمہ اللہ اس موضوع سے متعلق احادیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

«وَالْأَدِلَّةُ قَدْ دَلَّتْ عَلَى مَشْرُوعِيَّةِ الْفَتْحِ مُطْلَقًا، فَعِنْدَ نِسْيَانِ الْإِمَامِ الْآيَةَ فِي الْقِرَاءَةِ الْجَهْرِيَّةِ يَكُونُ الْفَتْحُ عَلَيْهِ بِتَذْكِيرِهِ تِلْكَ الْآيَةِ كَمَا فِي حَدِيثِ الْبَابِ، وَعِنْدَ نِسْيَانِهِ لِغَيْرِهَا مِنْ الْأَرْكَانِ يَكُونُ الْفَتْحُ بِالتَّسْبِيحِ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقِ لِلنِّسَاءِ». [نيل الأوطار 2/ 380]

’احادیث و آثار اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ امام کو لقمہ دینا مطلقا جائز ہے (چاہے وہ کوئی بھی نماز ہو) جہری نماز میں امام قراءت میں غلطی کرے تو اسے وہ آیت یاد دلائی جائے گی اور اگر وہ نماز کے دیگر ارکان میں سے کسی میں بھولے تو اس میں حدیث کے مطابق مرد سبحان اللہ کہیں گے، جبکہ خواتین تالی بجا کر تنبیہ کریں گی‘۔

البتہ مرد چونکہ امام کے قریب ہوتے ہیں، اس لیے مردوں  کو ہی غلطی کی تصحیح کرنی چاہیے، ویسے بھی عورتیں عموما امام سے دور ہوتی ہیں، امکان ہے کہ ان کی آواز شاید امام تک نہ پہنچ سکے۔ لیکن اگر عورت غلطی  کی تصحیح کر سکتی ہو تو  اس کے جواز میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے یہ سوال پوچھا گیا تو آپ نے اس کو جائز قرار دیا اور فرمایا کہ  عورت کی آواز پردہ نہیں ہے، لہذا بوقت ضرورت مردوں کی موجودگی میں عورت کے بولنے میں حرج نہیں، ہاں آواز کو بنا سنوار کر، دل لبھانے کے لیے بات کرنا ممنوع ہے، جیسا کہ  قرآنِ کریم میں اس کی ممانعت ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ