نبیؐ ہمارے بڑی شان والے (2)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی عزت و وقار کے ساتھ معراج پر لے جایا گیا

فرمایا اللہ تعالیٰ نے :

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ

پاک ہے وہ جو رات کے ایک حصے میں اپنے بندے کو حرمت والی مسجد سے بہت دور کی اس مسجد تک لے گیا جس کے اردگرد کو ہم نے بہت برکت دی ہے، تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بلاشبہ وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔
الإسراء : 1

 امام الانبیاء بننے کا شرف حاصل ہوا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

دَخَلْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ، فَجُمِعَ لِيَ الْأَنْبِيَاءُ عَلَيْهِمُ السَّلَام، فَقَدَّمَنِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَمَمْتُهُمْ

سنن النسائي |450
پھر میں بیت المقدس میں داخل ہوا۔ وہاں میرے لیے انبیاء علیہم السلام جمع کیے گئے تھے، چنانچہ مجھے جبریل علیہ السلام نے آگے کر دیا۔ میں نے ان کی امامت کی۔ پھر مجھے لے کر قریبی (پہلے) آسمان کی طرف چڑھے۔

اس روایت کی سند میں کلام ہے بعض علماء نے تو اسے منکر تک لکھا ہے مگر صحیح مسلم کی درج ذیل روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے

صحيح مسلم کی اردو مکتبہ شاملہ کے مطابق 430 نمبر روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
میں نے خود کو انبیاء کی ایک جماعت میں دیکھا تو وہاں موسیٰ علیہ السلام تھے کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے ، جیسے قبیلہ شنوءہ کے آدمیوں میں سے ایک ہوں ۔ اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو دیکھا، وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اور (وہاں ) ابراہیم علیہ السلام بھی کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ تمہارے صاحب ہیں ، آپ نے اپنی ذات مراد لی ، پھر نماز کا وقت ہو گیا تو میں نے ان سب کی امامت کی

تمام انبیاء سے آپ کی مدد کا عہد لیا گیا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ

اور جب اللہ نے سب نبیوں سے پختہ عہد لیا کہ میں کتاب و حکمت میں سے جو کچھ تمھیں دوں، پھر تمھارے پاس کوئی رسول آئے جو اس کی تصدیق کرنے والا ہو جو تمھارے پاس ہے تو تم اس پر ضرور ایمان لائو گے اور ضرور اس کی مدد کرو گے۔ فرمایا کیا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری عہد قبول کیا؟ انھوں نے کہا ہم نے اقرار کیا۔ فرمایا تو گواہ رہو اور تمھارے ساتھ میں بھی گواہوں سے ہوں۔
آل عمران : 81

جبریل اور میکائیل علیھما السلام آپ کی سکیورٹی پر مامور

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

لَقَدْ رَأَيْتُ يَوْمَ أُحُدٍ عَنْ يَمِينِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنْ يَسَارِهِ – رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا ثِيَابٌ بِيضٌ، يُقَاتِلَانِ عَنْهُ كَأَشَدِّ الْقِتَالِ، مَا رَأَيْتُهُمَا قَبْلُ وَلَا بَعْدُ

مسلم : 2306
غزوہ احد کے موقع پر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ کے ساتھ دو اور اصحاب ( یعنی جبرئیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام انسانی صورت میں ) آئے ہوئے تھے۔ وہ آپ کو اپنی حفاظت میں لے کر کفار سے بڑی سختی سے لڑ رہے تھے۔ ان کے جسم پر سفید کپڑے تھے۔ میں نے انہیں نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ اس کے بعد کبھی دیکھا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو اللہ تعالیٰ پکڑتے ہیں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ

اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا۔
المائدہ : 67
اور فرمایا :

إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ

بے شک ہم تجھے مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں کافی ہیں۔
الحجر : 95

اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے دشمنوں کی جڑ ہی کاٹ دی

إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ

یقینا تیر ا دشمن ہی لا ولد ہے۔
الكوثر : 3

جہنم کا داروغہ بھی آپ کو سلام کہتا ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :(معراج کے موقع پر) ایک کہنے والے نے کہا :

” يَا مُحَمَّدُ! هَذَا مَالِكٌ صَاحِبُ النَّارِ، فَسَلِّمْ عَلَيْهِ، فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ، فَبَدَأَنِي بِالسَّلَامِ “

اے محمد! یہ مالک ہیں ، جہنم کے داروغے ، انہیں سلام کہیے : میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو انہوں نے پہل کر کے مجھےسلام کیا۔‘‘

زمین و آسمان کے درمیان ہر چیز جانتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں

سیدنا جابر بن عبدالله رضی الله عنه بیان کرتے ہیں رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

ﺇﻧﻪ ﻟﻴﺲ ﺷﻲء ﺑﻴﻦ اﻟﺴﻤﺎء ﻭاﻷﺭﺽ، ﺇﻻ و ﻳﻌﻠﻢ ﺃﻧﻲ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ، غير ﻋﺎﺻﻲ اﻟﺠﻦ ﻭاﻹﻧﺲ

مصنف ابن أبي شيبة:(٣١٧١٩)
مسند أحمد:(١٤٣٣٣)حسن
زمین وآسمان کے درمیان موجود ہر چیز جانتی ہے کہ یقینا میں الله كا رسول ہوں سواے نافرمان جنوں اور انسانوں کے

درخت اور پتھر بھی آپ کو سلام کرتے تھے

علی رضی الله عنه بیان کرتے ہیں:

خرجت مع النبی صلی الله عليه وسلم فجعل لا یمر علی حجر و لا شجر الا سلم عليه۔

طبرانی أوسط:(5431) سندہ حسن لذاتہ۔
کہ میں نبی رحمت صلی الله عليه وسلم کے ساتھ باہر نکلتا تو جس بھی درخت اور پتھر کے پاس سے گذر ہوتا تو وہ درخت اور پتھر آپ صلی الله عليه وسلم کو سلام پیش کرتے۔

مکے کا ایک پتھر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” إِنِّي لَأَعْرِفُ حَجَرًا بِمَكَّةَ كَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُبْعَثَ، إِنِّي لَأَعْرِفُهُ الْآنَ “.

مسلم : 2277
“میں مکہ میں اس پتھر کو اچھی طرح پہچانتا ہوں جو بعثت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا،بلاشبہ میں اس پتھر کو اب بھی پہچانتا ہوں۔”

درختوں نے آپ کو چھپا لیا

جابر رضی الله عنه کہتے ہیں :رسول الله صلی الله عليه وسلم رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئے.
مگر آپ کو وہاں بطور پردہ کوئی چیز نظر نہ آئی ۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے ادھر، ادھر دیکھا تو وادی کے کنارے پر آپ صلی الله عليه وسلم کو دو درخت نظر آے جو ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر تھے آپ صلی الله عليه وسلم ان میں سے ایک درخت کے پاس تشریف لے گئے اس کی ٹہنی کو پکڑا اور فرمایا : تو میرے لیے الله کے حکم سے مطیع ہو جا تو درخت آپ کے پیچھے یوں چل دیا جیسے نکیل ڈالا اونٹ چلتا ہے۔آدھا فاصلہ طے ہو گیا تو آپ صلی الله عليه وسلم نے دوسرے درخت کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا اب وہ دونوں درخت حکم الہی سے آپس میں مل گئے تو آپ صلی الله عليه وسلم  ان کے پردے میں قضائے حاجت سے فارغ ہوئے تو وہ دونوں درخت جدا ہو کر اپنی اپنی جگہ واپس چلے گئے ۔
صحیح مسلم :3012 ۔

نبی مکرم صلى الله عليه وسلم کی رسالت عالمگیر ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

اورہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کے لیے خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
سبأ : 28

رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

” أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي : نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا ؛ فَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَدْرَكَتْهُ الصَّلَاةُ فَلْيُصَلِّ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْمَغَانِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ، وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً، وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً “

صحيح البخاري |335

مجھے پانچ خصوصیات دی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں( اسی روایت میں دوسری جگہ یہ الفاظ ہیںﻟﻢ ﻳﻌﻄﻬﻦ ﺃﺣﺪ ﻣﻦ اﻷﻧﺒﻴﺎء ﻗﺒﻠﻲ کہ مجھے سے پہلے کسی نبی کو یہ عطا نہیں کی گئیں)

(1) ایک ماہ کی مسافت تک  دشمن پر رعب وداب قائم کیا جانا
(2) ساری زمین مسجد اور طہارت کا ذریعہ بنا دی گئی تو جو شخص جہاں نماز کا وقت پا لے وہیں مماز پڑھ لے
(3) میرے لیے مال غنیمت کا حلال ہونا جو مجھ سے پہلے کس کے لیے حلال نہیں تھا
(4) اور مجھے امت کے گنہگاروں کے لیے شفاعت کا مرتبہ عطاء کیا گیا
(5) مجھے سب لوگوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا

اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اے میرے محبوب! میں آپ کو اتنا دوں گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے

فرمایا :

وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى

اور یقینا عنقریب تیرا رب تجھے عطا کرے گا، پس تو راضی ہو جائے گا۔
الضحى : 5

ایک دفعہ آپ اپنی امت کی بخشش کے متعلق بہت پریشان بیٹھے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جبریل سے فرمایا: “جبریل! محمد کے پاس جاؤ اور کہہ دو:

إِنَّا سَنُرْضِيكَ فِي أُمَّتِكَ وَلَا نَسُوءُكَ

مسلم : 202
ہم آپکو آپکی امت کے بارے میں راضی کر دینگے ، آپکو ناراض نہیں کرینگے”

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

“یہ حدیث اس امت کیلئے پر امید احادیث میں سے ایک ہے، یا اس سے بڑھ کر امید والی حدیث کوئی نہیں ہے”

لوگوں میں سب سے پہلے قبر سے نکلنے والے بھی ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَأَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ

مسلم : 5940
(میں) پہلا شخص ہوں گا جس کی قبر کھلے گی

سنن ترمذی میں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ

ترمذی : 3148،صحیح
میں پہلا شخص ہوں گا جس کے لیے زمین پھٹے گی( اور میں برآمد ہوں گا) اور مجھے اس پر بھی کوئی گھمنڈ نہیں

قیامت کے دن سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوش میں آئیں گے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لَا تُخَيِّرُونِي عَلَى مُوسَى ؛ فَإِنَّ النَّاسَ يَصْعَقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَصْعَقُ مَعَهُمْ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ، فَإِذَا مُوسَى بَاطِشٌ جَانِبَ الْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِي أَكَانَ فِيمَنْ صَعِقَ فَأَفَاقَ قَبْلِي، أَوْ كَانَ مِمَّنِ اسْتَثْنَى اللَّهُ “

صحيح البخاري |2411
لوگ قیامت میں بے ہوش ہو جائیں گے۔ اپنی قبر سے سب سے پہلے نکلنے والا میں ہی ہوں گا۔ لیکن میں دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش الٰہی کا پایہ پکڑے ہوئے ہیں۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام بھی بے ہوش ہوں گے اور مجھ سے پہلے ہوش میں آجائیں گے یا انہیں پہلی بے ہوشی جو طور پر ہو چکی ہے وہی کافی ہوگی۔

نبیؐ ہمارے بڑی شان والے

عمران محمدی

Avatar photo

عمران محمدی

تحصیل صفدر آباد ضلع شیخوپورہ سے تعلق رکھتے ہیں آپ نے جامعہ الدعوہ الاسلامیہ مریدکے سے 2011 میں سند فراغت حاصل کی،اور اسی وقت سے مادر علمی میں حدیث رسول کی تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، تدریس کے ساتھ ساتھ دعوت و اصلاح کی غرض سے خطابت اور کتابت کا کام بھی کر رہے ہیں۔

تبصرہ شامل کریں

متعلقہ پوسٹس