سوال

اکثر لوگ اب آن لائن کام کرتے ہیں اور پاکستان میں بھی بہت ساری کمپنیاں آن لائن کام کر رہی ہیں، جیسا کہ (ایکو نیکس۔ڈی ایکس۔اوری فلیم)وغیرہ۔

ان کا کام یہ ہوتا ہے جیسے مثال کے طور پر کوئی پہلے سے اس کمپنی میں کام کر رہا ہے تو اس نے اپنی ایک ٹیم بنانی ہوتی ہے،  بالفرض اس نے اپنی ٹیم میں کسی کوایڈ کیا ہے، جس کو ایڈ کیا ہے اب وہ جو کچھ بھی اس کمپنی سے خریدے گا تو جس نے ایڈ کیا تھا اس کو بھی شیئر ملے گا، پھر وہ آگے کسی کو ایڈ کرے گا۔

اسی طرح بالفرض 50 بندے آگے ایڈ ہوتے ہیں تو جو کچھ وہ کمپنی سے خریدیں گے تو ان تمام کے حساب سے پہلے والے کو شیئر ملے گا۔اور جو بھی کسی کوآگے ایڈ کرتا ہے، تو اس کو بھی کمیشن ملتا ہے۔ اس طرح ایک کڑی سے دوسری کڑی جڑتی جاتی ہے۔

پوچھنا یہ ہے کہ ایسی کمپنیوں میں کام کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • اس حوالے سے کئی ایک ایپس اور ویب سائٹس لوگوں نے بنائی ہوئی ہیں، سب میں دھوکہ دہی، جوا وغیرہ جیسی قباحتیں موجود ہیں، جو ایپ بدنام ہوجاتی ہے، وہ بند کرکے پرانے شکاری نیا جال لے کر میدان میں آجاتے ہیں اور یہ بتانا شروع کردیتے ہیں کہ ہمارا پہلے  سے یہ فرق ہے، وہ فرق  ہے وغیرہ۔  حالانکہ یہ سب نیٹ ورک مارکیٹنگ(Network Marketing)یا ملٹی لیول مارکیٹنگ (Multi Level Marketing)   ہی ہے،  اور ان کے مالکان اور ڈیلرز کے بیانات  میں حلال و حرام کا فرق اور جائز ناجائز کی تمیز صرف کہنے کی حد تک ہی ہوتی ہے، ورنہ حقیقت میں یہ سب Apps اور  Websites جن میں نیٹ ورک بنانے اور ممبران ایڈ کروانے، اور رجسٹریشن فیس اور ٹریننگ فیس وغیرہ ہتھکنڈے ہوتے ہیں، یہ سب دھوکہ فراڈ اور حرام کام ہے۔  مثلا:
  1. اس کاروبار کے ساتھ منسلک ہونے والوں کو معاملات کچھ بتائے جاتے ہیں، جبکہ حقیقت میں کچھ اور ہوتے ہیں۔ یہ کھلا دھوکہ ہے۔
  2. جو کمپنیز پراڈکٹ بھی ایڈ کرتی ہیں، ان کا صارف بیک وقت کمیشن ایجنٹ بھی ہوتا ہے اور کسٹمر یعنی خریدار بھی ہوتا ہے۔ اسے خود بھی چيزیں خریدنے کا پابند کیا جاتا ہے، جبکہ دیگر لوگوں کو ترغیب دے کر اس سلسلے کا حصہ بنانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ مشروط ہوتی ہیں۔ حالانکہ خرید و فروخت میں ایک چیز کو دوسری کے ساتھ مشروط کرنا درست نہیں۔
  3. اس کاروبار میں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ جیسے جیسے یہ سلسلہ آگے بڑھتا جاتا ہے، نیچے والے لوگ نقصان کا شکار ہوتے ہیں، جبکہ اوپر والے لوگ پیسہ لگانے یا محنت کے بغیر نفع حاصل کرتے رہتے ہیں۔ اس لحاظ سے ماہرین نے اسے ’سود’ سے بھی خطرناک قرار دیا ہے۔
  4. یہ کاروبار کا کوئی پائیدار طریقہ نہیں، کیونکہ اس میں جس قدر لوگ بڑھتے جاتے ہیں، فارغ بیٹھ کر کھانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اور پھر اس میں مسلسل نئے ممبرز کو ساتھ ملانا ضروری ہوتا ہے، جو کہ ظاہر ہے، ممکن نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے بہت سارے لوگ اس میں فیس دے کر رجسٹریشن کرواتے ہیں، لیکن جب وہ کسٹمرز اور ممبرز نہیں لاپاتے، تو ان کی ممبر شپ کینسل ہوجاتی ہے، اور فیس وغیرہ بھی ضبط ہوجاتی ہے۔

(مزید تفصیلات کے لیے اس پر پہلے  سے جاری کردہ فتاوی جات  کو  ہماری ویب سائٹ پر درج ذیل نمبرز پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے: 322، 328،326، 332، 333، 377)

الغرض نیٹ ورک مارکیٹنگ کا مروجہ طریقہ کار  بہت سے غیر شرعی امور  پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے،  لہذا ان سب کمپنیز ، ایپس، ویب سائٹس وغیرہ کے ساتھ کام کرنے سے اجتناب لازم ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ