سوال
ہمارے والد صاحب محمد اسلم بھٹی یکم اپریل 2023ء کو فوت ہوئے ہیں، جب کہ ان کے تین بچے تھے، دو بیٹے (خورشید اسلم، نوید اسلم) اور ایک بیٹی۔ خورشید اسلم والد صاحب کی زندگی میں ہی مئی 2020 میں وفات پاگئے تھے، خورشید مرحوم کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔
سوال یہ ہے والد صاحب کے بیٹے اور بیٹی کی موجودگی میں ان کے پوتے پوتیاں وارث ہوں گے کہ نہیں؟
قرآن وسنت کی روشنی میں تحریری جواب مرحمت فرمائیں، تاکہ اسے کسی بھی جگہ پیش کیا جاسکے۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
وراثت ملنے کی شرائط میں سے ہے، کہ وارث، موَرِّث کی وفات کے وقت زندہ ہو۔جو رشتے دار موَرِّث کی زندگی میں فوت ہو جاتے ہیں،ان کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ محمد اسلم بھٹی کا بیٹا خورشید اسلم چونکہ باپ کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا تھا، اس لیے وہ اپنے باپ کا وراث نہیں ہوگا۔ اسی طرح خورشید کی اولاد بھی اپنے دادا محمد اسلم کے وارث نہیں بن سکتے، کیونکہ دادا کی اولاد موجود ہے، تو اولاد کی موجودگی میں پوتے ، پوتیوں کا حصہ نہیں ہوتا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الفرائض میں ایک عنوان قائم کیا ہے:
“باب میراث ابن الابن إذا لم یکن ابن”. [صحیح بخاری: ٦٧٣٥]
’پوتے کی وراثت اس وقت بنتی ہے جب بیٹے موجود نہ ہوں‘۔
اور پھر اس کے ساتھ زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کا فتویٰ بھی نقل کیا ہے، کہ پوتا اس وقت وارث بنتا ہے جب مرحوم کا کوئی بیٹا نہ ہو۔
البتہ ایسی صورتِ حال میں دادا کو چاہیے کہ اپنے یتیم پوتے پوتیوں کے لیے وصیت کرکے جائے، اسی طرح ان بچوں کے چچا اور پھوپھی کو چاہیے کہ اپنے بھائی کی اولاد کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے ہوئے، جو دے سکتے ہیں ضرور دیں، یہ یتیموں کے ساتھ حسن سلوک بھی ہے، اپنے مرحوم بھائی کے ساتھ بھی نیکی ہے، اسی طرح صلہ رحمی کی بھی ایک بہترین صورت ہے۔
وراثت کی تقسیم اور مالی معاملات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَإِذَا حَضَرَ ٱلۡقِسۡمَةَ أُوْلُواْ ٱلۡقُرۡبَىٰ وَٱلۡيَتَٰمَىٰ وَٱلۡمَسَٰكِينُ فَٱرۡزُقُوهُم مِّنۡهُ وَقُولُواْ لَهُمۡ قَوۡلٗا مَّعۡرُوفٗا وَلۡيَخۡشَ ٱلَّذِينَ لَوۡ تَرَكُواْ مِنۡ خَلۡفِهِمۡ ذُرِّيَّةٗ ضِعَٰفًا خَافُواْ عَلَيۡهِمۡ فَلۡيَتَّقُواْ ٱللَّهَ وَلۡيَقُولُواْ قَوۡلٗا سَدِيدً [النساء: 8-9]
’اور اگر تقسیمِ وراثت کے موقع پر (غیر وارث) رشتہ دار ، یتیم اور محتاج موجود ہوں تو اس میں سے کچھ انہیں بھی دے دو اور اچھی بات کرو، اور یتیموں سے معاملہ کرنے والے لوگوں کو ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ اپنے پیچھے ناتواں بچے چھوڑ جاتے تو وہ ان بچوں سے متعلق کس قدر فکر مند ہوتے، لہذا انہیں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور سیدھی بات کہنی چاہیے ‘۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ