سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین متین بیچ اس مسئلے کے کہ اس سال سرکاری حج سکیم میں یہ ”رعایت“ اور ”گنجائش“  پیدا کر کے پورے تزک واحتشام کے ساتھ مشتہر کی جا رہی ہے کہ اب خواتین محرم کے بغیر حج ادا کر سکتی ہیں۔

کیا یہ ”رعایت“ اور ”گنجائش“ قرآن وسنت کی روشنی میں درست ہے؟ بینوا  توجروا ..‼

المستفتي:عبدالرحمن ایڈووکیٹ، اسلام آباد

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

عورت کیلیے بغیر محرم کے سفر کرنا جائز نہیں ہے، چاہے یہ سفرِ عبادت یعنی حج یا عمرے کیلیے اور والدین سے ملنے کیلیے ہو یا ان کے علاوہ دیگر جائز مقاصد کیلیے ہو۔اس بات پر نصوص اور قیاس واضح طور پر دلالت کرتے ہیں:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، تُسَافِرُ مَسِيرَةَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، إِلَّا مَعَ ذي محرم”. [صحيح مسلم:1339]

’اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والی خاتون  کیلیے جائز نہیں ہے، کہ وہ ایک دن اور رات  کی مسافت محرم  کے بغیر کرے‘۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں فرمایا:

«‌لَا ‌تَحُجَّنَّ ‌امْرَأَةٌ إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ». [مصنف عبد الرزاق:9729، سنن الدارقطني :2440 ، قال ابن حجر: إسناده صحيح. [الدراية: 2/ 4]

’کوئی بھی عورت محرم کے بغیر ہرگز حج نہ کرے‘۔

چونکہ سفر، تھکاوٹ اور مشقت کا باعث ہوتا ہے، اور عورت اپنی جسمانی کمزوری کے باعث ایسے سہارے کی محتاج ہوتی ہے، جو اس کے برابر کھڑا ہو، اور اس کی مدد کرے، کبھی ایسا بھی ممکن ہے کہ عورت فوری ضرورت پڑنے پر درست فیصلہ نہ کر پائے، اور محرم کی عدم موجودگی میں غیر معمولی صورت حال پیدا ہو جائے ، جیسے کہ یہ چیز ٹریفک اور دیگر ذرائع سفر کے حادثات میں عام ہے۔

بعض اہل علم جو گنجائش دیتے ہیں کہ اگر قابل اعتماد قافلہ اور ’رفقہ آمنہ‘ کی صورت ہو تو بغیر محرم سفر کیا جا سکتا ہے، یہ موقف  واضح نصوص کے خلاف ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دو دفعہ حج ہوا ہے، ایک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی امارت میں اور ایک خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں گئے ہیں اور یہ دونوں ہی ایسے قافلے تھے جو مامون و محفوظ اور رفقہ آمنہ تھے اس کے باوجود کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی عورت نے بغیر محرم کے حج کیا ہو۔

بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

«لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ، وَلَا تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ»، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ امْرَأَتِي خَرَجَتْ حَاجَّةً، وَإِنِّي اكْتُتِبْتُ فِي غَزْوَةِ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: «انْطَلِقْ فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِكَ»  [صحیح بخاری: 1862، صحیح مسلم:1341]

’’کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ ہر گز تنہا نہ ہو مگر یہ کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو اور کوئی عورت سفر نہ کرے مگر یہ کہ محرم کے ساتھ ہو۔‘‘ یہ بات سن کر ایک آدمی اٹھا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میری بیوی حج کے لیے نکلی ہے اور میرا نام فلاں فلاں غزوے میں لکھا جا چکا ہے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو‘‘۔

لہذا اس سلسلے میں اگر کوئی گنجائش ہوتی تو اس صحابی کو  جہاد سے نام کٹوا کر اپنی بیوی کے ساتھ حج پر جانے کا حکم نہ دیا جاتا! [ التعليقة الكبيرة لأبي يعلى:2/510]

اس سے یہی سمجھ آتی ہے کہ قافلہ جتنا بھی قابل اعتماد اور سفر کتنا بھی محفوظ ہو، محرم کے بغیر عورت کا سفر کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر حجۃ الوداع کے موقع پر رفقہ امنہ کیا ہو سکتا ہے۔

لہذا ہمارا رجحان یہی ہے کہ جو عورت محرم کے بغیر حج کا سفر کر رہی ہے اس کا یہ سفر صحیح نہیں ہے۔ ہاں  اگر کوئی عورت اس طرح  حج کے لیے چلی جاتی ہے تو  اس کا حج  ہو جائے گا البتہ بغیر محرم سفر کرنے کا گناہ اس کے کھاتے میں رہے گا۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ