سوال
پاکستان میں خاص طور پر بڑے شہروں میں، ہمیں ایک ایسی صورتحال کا سامنا ہے جس کی وجہ سے شہر کے اندر حکومت کی طرف سے فراہم کیے گئے بڑے قبرستانوں میں جگہ ختم ہو گئی ہے۔ کچھ قبرستان مختلف برادریوں کے زیر انتظام ہیں اور یہ بھی اب تیزی سے شہر سے باہر بنائے جارہے ہیں اور وہ اس برادری کے افراد تک ہی محدود ہیں۔ شہر کے اندر قبریں بلیک مارکیٹ میں قبرستان کے رکھوالوں کی طرف سے بھاری قیمتوں پر $700-$2000 (120,000-350,000 روپے) فی قبر فروخت کی جا رہی ہیں (اور یہ غلط کام کرنے والے لوگ سرکاری افسران کو آنکھیں بند کرنے کیلئے رشوت دیتے ہیں)۔ یہ بنیادی طور پر ان لوگوں کی پرانی قبروں کو دوبارہ استعمال کرتے ہیں جن کے لواحقین تعزیت کے لیے نہیں آتے۔ چنانچہ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے، ایک تجویز پیش کی گئی تھی کہ قبروں کو اس طرح دوبارہ استعمال کرنے کا ایک ایسا نظام بنایا جائے کہ ہر 15 سال بعد ایک قبر کو دوبارہ استعمال کیا جاسکے۔ تاہم عوام کا یہ خیال ہے کہ ایسا عمل غیر اسلامی ہے۔
سوال: قبروں کو دوبارہ استعمال کرنے کے بارے میں اسلامی موقف کیا ہے؟ کیا حالات کے پیش نظر شہروں میں اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
قبرستانوں کی موجودہ صورتحال واقعی بڑی سنگین اور تشویشناک ہے۔آجکل قبرستان میں نئی قبر بنانا واقعی بہت مشکل اور دشوار ہے۔ اور یہ گورکن اپنی مرضی سے کسی بھی پرانی قبر کو اکھاڑ دیتے ہیں۔خاص کر ان قبروں کو جن کے لواحقین نہیں آتےان کو اکھاڑ کر وہاں پر نئی میت کو دفن کرتے ہیں اور اس پر بھاری معاوضہ لیتے ہیں۔ اس صورت حال کو کنٹرول كرنے کے لیے ہماری تجاویز درجِ ذیل ہیں:
1. جہاں پر نئی سوسائٹیاں بن رہی ہیں ان کو چاہیے کہ سوسائٹی سے تھوڑا سا الگ قبرستان کا بھی انتظام کردیا جائے۔
2. قبرستان میں میت کی تدفین کسی ضابطہ کے تحت کی جائے۔اس کے لئے کوئی لائحہ عمل پہلے سے تیار کرنا چاہیے، تاکہ کوئی بھی شخص قبروں کے ساتھ کھلواڑ نہ کرسکے۔
3. پختہ قبر بنانے پر مکمل طور پر پابندی لگا دی جائے اور نہ ہی پہلے سے کسی قبر کی جگہ رکھی جائے۔
4. آج کل ایک سے زائد منزلہ قبرستان بنانے کی بھی تجویز آرہی ہے اس کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیےکیونکہ میت کو زمین کے اندر دفن کیا جاتا ہے۔یہ دو منزلہ یا تین منزلہ قبرستان بنانا میت کو زمین کے اندر دفن کرنا نہیں ہے، اس سلسلہ میں ہمیں چاہیے انتہائی غور و فکر کریں۔
اسلام میں انسان زندہ اور مردہ دونوں حالتوں میں قابل احترام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“لَأَنْ أَمْشِيَ عَلَى جَمْرَةٍ، أَوْ سَيْفٍ، أَوْ أَخْصِفَ نَعْلِي بِرِجْلِي، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَمْشِيَ عَلَى قَبْرِ مُسْلِمٍ، وَمَا أُبَالِي أَوَسْطَ الْقُبُورِ قَضَيْتُ حَاجَتِي، أَوْ وَسْطَ السُّوقِ”. [سنن ابن ماجة:1567]
’کسی مسلمان کی قبر پر چلنے کے مقابلے میں مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں انگارے پر یا تلوار پر چلوں یا اپنا جوتا اپنی ٹانگ کے ساتھ سلائی کر لوں، اسی طرح سر بازار قضائے حاجت کرنا اور قبروں کے درمیان قضائے حاجت کرنا میرے نزدیک برابر ہے‘۔
یعنی جس طرح بازار میں سب کے سامنے قضائے حاجت کرنا ایک قبیح کام ہے، اسی طرح قبرستان میں یہ حرکت کرنا بھی ناپسندیدہ ہے۔
شریعتِ مطہرہ میں اس قسم کے احکامات احترام کے پیش نظر ہی ہیں۔ہمیں چاہیے کہ اس مسئلہ پر غور و فکر کیا جائے، خاص کر ارباب اقتدار کو اس طرف توجہ دلائی جائے۔
البتہ بوقت ضرورت فقہانے پرانی قبر کھولنے اور اس میں نئی میت کو دفن کرنے کی مشروط اجازت دی ہے۔
ہمارے مشاہدے کے مطابق جب میت کو قبر میں دفن کیا جاتا ہے۔چھ ماہ بعد اسے مٹی کھانا شروع کر دیتی ہے،کچھ عرصہ بعد اس کی ہڈیاں ہی رہ جاتی ہیں اور بعد میں ہڈیاں بھی گل سڑ جاتی ہیں، صرف عَجْبُ الذَّنَبِ یعنی ریڑھ کی ہڈی باقی رہتی ہے۔جس سے دوبارہ اس انسان کی تخلیق ہو گی۔ (صحیح مسلم:4814)
لہذا اگر قبر اتنی پرانی ہو چکی ہو کہ میت کا مٹی میں تحلیل ہو جانے کا غالب یقین ہو، تو اس قبر کو کھول کرصاف کرکے دوسری میت دفن کرنا جائز ہے۔اگر اس قبر سے ہڈیاں برآمد ہوں تو ان کو اکٹھا کر کے ایک کونے میں دفن کردیا جائے ۔نئی قبر اور مدفون ہڈیوں کے درمیان مٹی کی اوٹ بنا دی جائے۔
لیکن اگر قبر کھولنے کے بعد میت کا جسم تازہ ہو تو اس قبر کو احترام کے ساتھ بند کر دیا جائے اور حاضر میت کی تدفین کا دوسری جگہ بندوبست کیا جائے۔
لہذا صورت مسئولہ کی طرح واقعی اگر قبر پرانی ہوجائے اور میت مٹی میں تحلیل ہو چکی ہو تو اس کی جگہ پر دوسری میت کو دفن کرنا جائز ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ