سوال

ايصال ثواب سے ہٹ کر آج کل نیا گھر ،نئی دکان بنانے پر بطور برکت قرآن خوانی کی جاتی ہے، کیا اس کی کوئی دلیل عہد ِنبوی سے ملتی ہے ؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

 ہمارے معاشرےمیں بہت سارے ایسے کام ہیں جن کو ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہےلیکن کتاب و سنت اور سلف صالحین سے اس كی دلیل نہیں ملتی۔ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی آدمی نئی دکان یا مکان بنا لے، تو وہاں طلبہ کو بلا کر ان کے ہاتھوں میں سپارے پکڑوا دیے جاتے ہیں اور قرآن خوانی کروائی جاتی ہے۔مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس سے برکت ہوتی ہے۔ بلاشبہ قرآن کریم کی قراءت باعث برکت ہے، لیکن اس کا یہ انداز محلِ نظر ہے۔ حصولِ برکت کا درست طریقہ یہ ہے کہ صاحبِ خانہ و دکان خود کو عبادات اور اذکار کا پابند بنائیں۔ ایک ہی دن چند لوگوں کو بلوا کر قرآن خوانی کروانے کی بجائے، خود قرآن کی تلاوت کا معمول بنائیں اور صبح و شام کے اذکار کی پابندی کریں۔
بعض دکانوں میں دیکھا گیا ہے کہ ہر روز ایک قاری صاحب آتے ہیں، اور وہاں بیٹھ کر پانچ دس منٹ کے لیے قرآن کی تلاوت کرکے چلے جاتے ہیں، جبکہ خود دکاندار نماز، تلاوت، اذکار سب سے بے فکر رہتے ہیں! حالانکہ برکت بازار میں بکنے والی کوئی پراڈکٹ نہیں، جسے اس طرح کے طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے، بلکہ یہ ایک مکمل لائف اسٹائل ہے، جو بھی اس کی پابندی کرتا ہے، اللہ تعالی اُس کے شب وروز میں برکتوں کا نزول فرماتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حصولِ برکت کے اس قسم کے وقتی اور آرٹیفیشل طریقوں کو اہلِ علم نے بدعات میں شمار کیا ہے۔ ( دیکھیں: السنن والمبتدعات للشقيري، ص:216، بدع القراء لبكر أبو زيد، ص:20، معجم البدع، ص: 527)
 ہاں البتہ کسی نعمت کے حصول کے موقع پر شکرانے کے طور پر دعوت رکھی جائے، یا صدقہ و خیرات کی نیت ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
جس طرح شادی کے بعد والی دعوت کو ’ولیمہ‘ کہا جاتا ہے، اسی طرح گھر وغیرہ کی تعمیر کی مناسبت سے جو دعوت رکھی جاتی ہے،فقہا اسے ’وکیرۃ‘ کہتے ہیں، اس کے علاوہ بھی مختلف مناسبات سے رکھی جانے والی دعوتوں کے مختلف نام کتبِ فقہ میں مذکور ہیں۔ امام ابن قدامہ رحمہ اللہ ان کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

“فأما الدعوة في حق فاعلها، فليست لها فضيلة تختص بها؛ لعدم ورود الشرع بها، ولكن هي بمنزلة الدعوة لغير سبب حادث، فإذا قصد فاعلها ‌شكر ‌نعمة ‌الله ‌عليه، وإطعام إخوانه، وبذل طعامه، فله أجر ذلك، إن شاء الله تعالى”.[المغني:7/ 286، الكافي:3/120]

’اس قسم کی دعوت کی شریعت میں کوئی خاص فضیلت مذکور نہیں، لیکن اگر اس سے مقصد اللہ کی نعمتوں کا شکریہ، اور اپنے بھائیوں ، دوستوں کو کھلانا پلانا ہو، تو نیت کے مطابق اجر کی امید ہے۔ ان شاءاللہ‘۔
اسی سے ملتی جلتی بات ابن قیم نے ’تحفۃ المودود‘( ص:76) میں کہی ہے۔ سعودی فتوی کمیٹی ’لجنۃ دائمہ‘ کا بھی یہی موقف ہے۔
یاد رہے کہ بعض لوگ نئی جگہ منتقل ہونے کے بعد وہاں موجود جن و شیاطین کے شر سے بچنے کے لیے، یا نظر بد سے محفوظ رہنے کے لیے، نذر و نیاز دیتے ہیں، یہ صرف بدعت ہی نہیں، بلکہ شرک کے درجے تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ اللہ تعالی سب کو بدعات و خرافات اور شرکیات سے محفوظ رکھے اور سنت و ہدایت کے رستے پر چلائے۔ آمین

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ