سوال

ایسا امام جو قرآن کریم پڑھنے میں واضح غلطیاں کرتا ہے، جیسا کہ “فزادهم اللهُ مرضا” میں لفظ ’اللہ’ پر زبر پڑھنا، “وسيجنبها” میں ’ی’ کی جگہ ’ ج‘ یعنی “وسججنبها” اور “لشديد” كو “لاشديد”، کیا ایسے شخص کو امام رکھنا جائز ہے؟ اور جو شخص ان غلطیوں کو سمجھتا ہے، کیا اس کے لیے ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

قرآن ِ مجید میں غلطی کرنے کو لحن کہتے ہیں۔اور اس لحن کی دو اقسام ہیں:
1: لحن جلی 2: لحن خفی
لحن خفی یہ ہے کہ غنہ ،اخفاء، لام یا راء کو پُر یا باریک پڑھنے میں غلطی کرنا۔ اس طرح کی ساری مثالیں لحن خفی میں آتی ہیں، یہ ایسی غلطیاں ہیں، جن سے معانی میں تبدیلی نہیں آتی ۔ جبکہ لحنِ جلی ایسی واضح غلطیاں ہوتی ہیں، جن سے حروف اور الفاظ بدل جاتے ہیں، اور معانی بھی تبدیل ہوجاتے ہیں، جیسا کہ اس امام کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ “فزادهم اللهُ مرضا” کو “فزادهم اللهَ مرضا” پڑھتا ہے اور”إن بطش ربك لشديد” كو ” لاشديد” پڑھتا ہے۔ یہ سب ایسی غلطیاں ہیں، جن سے قرآن کریم میں کمی بیشی لازم آتی ہے، بلکہ اس سے معنی میں ایسی تبدیلی آتی ہے، جو انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے۔
اس امام کو اچھے انداز سے سمجھائیں کہ یہ انداز سرا سر غلط ہے۔ یہ محض لب و لہجے کا فرق نہیں، جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم دیہاتی ہیں، سادہ قرآن پڑھتے ہیں، بلکہ یہ کوتاہی بہت خطرناک ہے، کیونکہ یہ اللہ کی کتاب کا معاملہ ہے، جس میں ذرا سی غلطی بھی کفر تک لے جاتی ہے۔ اگر یہ اپنی غلطی تسلیم کر لے، اور اصلاح کرنا شروع کر دے تو ٹھیک، ورنہ اسے بدل دیا جائے، ایسے شخص کو امامت کے منصب پہ فائز کرنا درست نہیں۔
اگر مقتدیوں کی اکثریت اس غلطی سے واقف ہے، تو ایک میٹنگ بلا کر مناسب طریقے سے اس امام کو بدل لیں اور کوئی ایسا امام لائیں جو قرآن و سنت کی بنیادی تعلیم اور صلاحیت رکھتا ہو کہ قرآن کریم کو درست طریقے سے پڑھ سکے، اور نماز وغیرہ عبادات کے مسائل سے واقف ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“أَحَقُّهُمْ بالإِمَامَةِ أَقْرَؤُهُمْ”.[صحيح مسلم:672]

’امامت کا زیادہ حق وہ رکھتا ہے، جو قرآن کریم میں زیادہ مہارت رکھتا ہو‘۔
ایک اور حدیث میں فرمایا:

“يَؤُمُّ القَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللهِ، فإنْ كَانُوا في القِرَاءَةِ سَوَاءً، فأعْلَمُهُمْ بالسُّنَّةِ”. [صحيح مسلم:673]

’ لوگوں کو امامت وہ کروائے، جو قرآن کریم میں زیادہ مہارت رکھتا ہو، اگر سب ہی ایک جیسے ہوں، تو سنت کا زیادہ علم رکھنے والا، امامت کا زیادہ حقدار ہے‘۔
اگر یہ دونوں کام ممکن نہ ہوں کہ امام بھی اصلاح کے لیے تیار نہ ہو، اور اسے بدلنا بھی ممکن نہ ہو، تو پھر مقتدیوں کو چاہیے کہ اس مسجد کے علاوہ کو ئی اور اہل توحید کی مسجد میں نماز پڑھیں، جہاں کا امام امامت کی اہلیت وصلاحیت رکھتا ہو۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ