سوال
ایک خاتون کے پاس سولہ تولے سونا تھا۔ تقریبا آٹھ سال اس کے پاس رہا، لیکن اس نے زکاۃ نہ ادا کی ۔ اب اسے اللہ کا ڈر پیدا ہوا، تو کیا اب وہ زکاۃ ادا کرے گی؟ اور اب وہ یہ زیور اپنی بیٹی کو دے چکی ہے ۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
زکوۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ جہاں بھی نماز کا حکم ہوا ہے، عموما ساتھ ہی اللہ تعالی نے زکوۃ کا حکم دیا ہے۔
اور زکوۃ ایسا اہم فریضہ ہےکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے زکوۃ نہ دینے والوں کے خلاف جنگ کی اور فرمایا :
“واللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَن فَرَّقَ بيْنَ الصَّلَاةِ والزَّكَاةِ، فإنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ المَالِ، واللَّهِ لو مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إلى رَسولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ علَى مَنْعِهَا”. [صحیح البخاری:1399]
’ اللہ کی قسم جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرے گا، میں اس سے جنگ کروں گا، کیونکہ مال میں زکاۃ فرض ہے، اللہ کی قسم اگر بکری کا ایک بچہ بھی، جو یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں بطور زکاۃ ادا کیا کرتے تھے، اس کو روک لیں گے، تو میں ان سے جنگ جاری رکھوں گا‘۔
حالانکہ وہ زکوۃ کے منکر نہیں تھے بلکہ اس بارے میں ایک مغالطے کا شکار ہوگئے، اور کہنے لگے کہ زکوۃ وصول کرنا صرف اللہ کے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا حق ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں آیا ہے:
“خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْ”. [سورۃ التوبہ:۱۰۳]
’آپ ان کے اموال میں سے زکوٰۃ وصول کیجئے کہ آپ اس کے باعث انہیں پاک فرما دیں اور ان کے اموال کو اس کے ذریعے بڑھائیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں‘۔
اس آیت میں چونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا گیا ہے، اس لیے انہوں نے سمجھا کہ زکوۃ تو اللہ کے نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے لینی تھی کیونکہ اب وہ نہیں رہے اس لئے زکاة بھی اب نہیں ہے۔
بہرصورت یہ ایک مغالطہ تھا، کیونکہ دین کے احکامات قیامت تک کے لیے ہیں، صرف عہدِ نبوی کے ساتھ خاص نہیں تھے۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے تمام مانعین زکاۃ کے ساتھ جنگ کی، کیونکہ اسلام میں زکاۃ کی ادائیگی فرض ہے۔
صورت مسئولہ میں مذکورہ خاتون کے پاس سولہ تولے سونا تھا اور انہوں نے آٹھ سال تک زکوۃ ادا نہیں کی، اس نے اللہ تعالی کے فریضے کو ادا کرنے میں سستی اور کوتاہی کی ہے۔ اب جلد از جلد ہر سال کے مطابق سونے کاریٹ کا حساب لگا کر پوری پوری زکاۃ ادا کرے۔اگر اس عورت نے وه زيور اب اپنی بیٹی کو دے دیا ہے تو بیٹی کے ذمے فرض ہے کہ وہ اس کی زکوۃ ادا کرے، کیونکہ یہ لوگوں کا بھی حق ہے اور اللہ کا بھی حق ہے، جو کہ کسی صورت بھی معاف نہیں ہے اس کی ادائیگی ضروری ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ