سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کے فضائل و شہادت
اگر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کی شان اور انکے مقام و مرتبہ کو دیکھا جائے تو آپ رضی اللّٰہ عنہ بہت زیادہ شان، مقام، اور عزت والے ہیں۔
آپ رضی اللّٰہ عنہ کی شخصیت سے متعلق چند چیزیں پیشِ خدمت ہیں:
1: سیدنا عمر فاروق کا مختصر تعارف۔
* نام: عمر بن خطاب
* لقب: فاروق
* کنیت: ابو حفص
* شجرہ نسب:
عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزّٰی بن ریاح بن عبد اللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوی بن فہر بن مالک۔
* آپ رضی اللّٰہ عنہ کی نسبت نویں پشت (کعب) پر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے جا ملتی ہے۔
2: سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کی فضیلت۔
1: کون عمر رضی اللّٰہ عنہ جسے خلیفہ ثانی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
2: کون عمر رضی اللّٰہ عنہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سسر ہیں۔
3: کون عمر رضی اللّٰہ عنہ جن کے قبول اسلام کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائیں کیں۔
” اللھم اعز الاسلام بعمر ابن الخطاب “(سنن ترمذی:3981)
اے اللہ عمر بن خطاب کے ذریعے اسلام کو عزت دے۔
4: کون عمر رضی اللّٰہ عنہ جن کا اسلام قبول کرنے میں 40 واں نمبر ہے۔
5: کون عمر رضی اللّٰہ عنہ جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” لو کان بعدی نبی لکان عمر” (سنن ترمذی:3686)
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتے تو وہ عمر فاروق ہوتے۔
6: کون عمر رضی اللّٰہ عنہ جن کے قبول اسلام کے بعد سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا کرتے تھے:
اللہ کی قسم ہم کعبہ میں چھپ چھپ کے نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ لیکن جب سے عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ اسلام لائے ہم سرعام نماز پڑھنے لگے۔
7: کون عمر رضی اللّٰہ عنہ جن کے متعلق عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر ساری دنیا کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں ہو اور عمر رضی اللّٰہ عنہ کا علم دوسرے پلڑے میں ہو تو عمر رضی اللّٰہ عنہ کا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔
8: کون عمر رضی اللّٰہ عنہ جس کو زبان نبوت سے شہادت کی خوشخبری ملی۔ (صحیح البخاری:3675)
9: کون عمر رضی اللّٰہ عنہ جسے زبان نبوت سے جنت کی خوشخبری ملی۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عمر في الجنة (سنن ترمذی: 3747)
’’عمر جنتی ہیں‘‘۔
10: کون عمر رضی اللّٰہ عنہ جن کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“هَذَانِ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ إِلَّا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ،(سنن ترمذی:3664)
ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما دونوں جنت کے ادھیڑ عمر والوں کے سردار ہوں گے، خواہ وہ اگلے ہوں یا پچھلے، سوائے انبیاء و رسل کے۔
11: کون عمر رضی اللّٰہ عنہ جس کی رائے کو اللہ تعالی نے پسند فرمایا۔
12: کون عمر رضی اللّٰہ عنہ جس سے شیطان بھی ڈر کر اپنا راستہ تبدیل کر لیتا، اور کئی اس دور میں شیطان جیسے لوگوں بھی موجود ہیں جو سیدنا عمر رضی اللّٰہ عنہ کا نام سن کر مجلس چھوڑ جاتے ہیں اور کچھ لوگوں کی زبان حرکت کرنا چھوڑ جاتی ہے۔
3: سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کی مدینہ کی طرف ہجرت۔
حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سوا کسی نے اعلانیہ ہجرت نہیں کی۔
جب آپ رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا پروگرام بنایا تو تلوار لی، اور کمان کاندھے پر لٹکائی اور تیروں کا ترکش ہاتھ میں لےکر حرم میں داخل ہوئے۔ خانہ کعبہ کے صحن میں قریش کا ایک گروہ موجود تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پورے اطمینان سے طواف مکمل کیا اور نماز ادا کی، پھر کفار کے ایک ایک گروہ کے پاس جاکر فرمانے لگے: تمہارے چہرے ذلیل ہوگئے ہیں، جس نے اپنی ماں کو نوحہ کرنے والی، بیوی کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کرنا ہو وہ حرم سے باہر آکر مجھ سے دو ہاتھ کرسکتا ہے۔ (اسد الغابہ،ج 4،ص163،تاریخ الخلفاء: 79)
4: آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے گواہی پانے والے۔
* سیدنا عمر رضی اللّٰہ عنہ کے دین پر ہونے کی گواہی۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُ النَّاسَ عُرِضُوا عَلَيَّ وَعَلَيْهِمْ قُمُصٌ فَمِنْهَا مَا يَبْلُغُ الثَّدْيَ وَمِنْهَا مَا يَبْلُغُ دُونَ ذَلِكَ وَعُرِضَ عَلَيَّ عُمَرُ وَعَلَيْهِ قَمِيصٌ اجْتَرَّهُ ، قَالُوا : فَمَا أَوَّلْتَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : الدِّين.(صحیح البخاری:3691)
میں نے خواب میں دیکھا میرے سامنے کچھ لوگ موجود ہیں انہوں نے قمیض پہنی ہوئی ہے بعض کی قمیض سینے تک بعض کی اس سے بھی چھوٹی، پھر میرے سامنے سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ آئے، ان کی قمیض پاؤں میں کھسٹی ہوئی نظر آتی ہے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کہنے لگے آپ نے اس کی تعبیر کیا فرمائی؟ آپ نے فرمایا اس سے مراد دین ہے۔
* سیدنا عمر رضی اللّٰہ عنہ کے ایمان کی گواہی۔
عبد اللہ بن ہشام رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں:
” كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِي ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِك ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : فَإِنَّهُ الْآنَ وَاللَّهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : الْآنَ يَا عُمَرُ ” (صحیح البخاری:6632)
ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اے اللّٰہ کے رسول اللہ علیہ وسلم! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں ، سوائے میری جان کے ۔ تو نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ ( ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا ) جب تک میں تمہیں تمہاری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : پھر اللّٰہ کی قسم! اب آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ، عمر ! اب تیرا ایمان پورا ہوا ۔
دیکھیں کتنی محبت ہے سیدنا عمر رضی اللّٰہ عنہ کو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے کسی سے کوئی بات نہیں کی کسی سے کوئی مشورہ نہیں کیا فوراً آپ کی بات کو تسلیم کرلیا ، یہ ہے صحابہ کی شان، مقام ۔
* سیدنا عمر رضی اللّٰہ عنہ کے علم کی گواہی۔
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ شَرِبْتُ يَعْنِي اللَّبَنَ حَتَّى أَنْظُرَ إِلَى الرِّيِّ يَجْرِي فِي ظُفُرِي أَوْ فِي أَظْفَارِي ، ثُمَّ نَاوَلْتُ عُمَرَ ، فَقَالُوا : فَمَا أَوَّلْتَهُ ، قَالَ : الْعِلْمَ “(صحیح البخاری:3681)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے خواب میں دودھ پیا ، اتنا دودھ پیا میں دودھ کی تازگی دیکھنے لگا جو میرے ناخن پر نظر آنے لگی ، پھر میں نے پیالہ عمر رضی اللہ عنہ کو دے دیا ۔ صحابہ نے پوچھا : اے اللّٰہ کے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم! اس خواب کی تعبیر کیا ہے آپ نے فرمایا کہ اس کی تعبیر علم ہے ۔
یعنی سب سے زیادہ علم نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس تھا اور انکے بعد حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے پاس تھا۔
5: عمر رضی اللّٰہ عنہ اپنی رعایا کا خیال رکھنے والے۔
* راتوں کے اندرون میں سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ مدینہ کی گلیوں میں گھومتے کہ کہیں کسی کو کوئی پریشانی، غم، مصیبت تو نہیں، کہیں کوئی بھوک کی وجہ سے پریشان تو نہیں، آپ رضی اللّٰہ عنہ 22 لاکھ مربع میل کے حکمران ہیں خود پیوند لگے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اپنی فکر نہیں اپنی رعایا کی فکر ہے۔ اے عمر رضی اللّٰہ عنہ قربان جائیں تیری حکمرانی پر۔
* عبداللہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں: کہ عمر رضی اللّٰہ عنہ کی عادت تھی کہ ہر نماز کے بعد بیٹھ کر لوگوں کے مسائل سنتے اور انکو حل کرتے ایک دن آپ رضی اللّٰہ عنہ آئے نماز پڑھا کر چلے گئے۔ ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ آج کیا معاملہ ہے کہتے میں نے نماز پڑھی اور میں انکے دروازے پر پہنچا اور میں نے انکے غلام یرفا سے پوچھا اے یرفا ! کیا امیر المومنین بیمار ہیں؟ جواب ملا: نہیں۔ کہتے میں ادھر بیٹھ گیا۔ کچھ وقت کے بعد ابن عفان رضی اللّٰہ عنہ آئے اور وہ بھی بیٹھ جاتے ہیں۔ یرفا آیا اور کہنے لگا: اے ابن عفان اور ابن عباس! کھڑے ہو جائیں اور اندر داخل ہو جائیں۔ جب آپ رضی اللّٰہ عنہما اندر داخل ہو کر سیدنا عمر رضی اللّٰہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا سامنے غلے کے ڈھیر لگے ہیں تو عمر رضی اللّٰہ عنہ کہتے ہیں: میں نے غور کیا مدینے میں آپ دونوں کا خاندان بڑا ہے، جاؤ اور مدینے کے لوگوں میں اس مال کو تقسیم کردو اور جو بچ جائے اس کو واپس لے آنا۔ آپ رضی اللّٰہ عنہما جانے لگے تو ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ کہنے لگے: اگر مال کم ہوا تو ہمارا کیا بنے گا؟ آپ رضی اللّٰہ عنہ کہنے لگے: آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھوکے نہیں رہتے تھے؟ تو ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ کہنے لگے: کیوں نہیں! لیکن جب اس طرح مال تقسیم ہوتا آپ خود بھی کھاتے اور اپنے صحابہ کو بھی کھلاتے تھے۔ (مسند حمیدی:164٫1)
6: شہادت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ۔
سیدنا عمرو بن میمون رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں:
جس دن سیدنا عمر رضی اللّٰہ عنہ کو زخمی کیا گیا اس دن میں آپ رضی اللّٰہ عنہ کے انتظار میں تھا، جب آپ آئے آپ نے صفوں کو درست کروایا۔ کہتے ہیں میرے اور آپ کے درمیان عبداللہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہ کے سوا کوئی نہیں تھا۔ آپ رضی اللّٰہ عنہ نماز فجر پڑھانے کے لیے مصلے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور آپ کی عادت تھی آپ سورۃ یوسف یا سورۃ نحل یا اس کے برابر کی کوئی سورت تلاوت کرتے تھے۔ ابھی آپ نے نماز شروع کی تھی کہ ابو لولو فیروز نے آپ رضی اللّٰہ عنہ پر خنجر سے حملہ کر دیا۔ اور جب بدبخت باہر جانے لگا اپنے تیز خنجر کے ساتھ لوگوں کو مارتا ہوا، آخر کار ایک حطان نامی شخص نے جب یہ صورت حال دیکھی تو اس کے منہ پر کپڑا ڈال دیا، اب اس کو علم ہو گیا کہ میں اب بچ نہیں سکتا۔ تو پھر اس نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ختم کر دیا۔
پھر عمر رضی اللّٰہ عنہ نے سیدنا عبد الرحمن بن عوف کو مصلے پر کھڑا کیا۔ پھر نماز مکمل ہوئی تو سیدنا عمر رضی اللّٰہ عنہ کو گھر لے جایا گیا۔ آپ رضی اللّٰہ عنہ کی خدمت میں دودھ پیش کیا آپ نے پیا اور دودھ زخم کے راستے باہر آ گیا۔ پھر عمر رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے بیٹے سے کہا: آپ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا کے پاس جائیں اور ان سے کہیں: عمر رضی اللّٰہ عنہ اپنے یاروں کے ساتھ دفن ہونے کی خواہش کرتے ہے، اگر آپ اجازت دیں تو! عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، سلام پیش کیا اور کہا: میرے باپ کی یہ خواہش ہے اگر آپ اجازت دیں تو! آپ رضی اللّٰہ عنہا کہتی ہیں: یہ جگہ میں نے اپنے لیے رکھی تھی لیکن میں عمر رضی اللّٰہ عنہ کو یہاں دفن ہونے کی اجازت دیتی ہوں۔ تو ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ نے جا کر اپنے باپ سے کہا کہ آپ کو اجازت مل گئی ہے۔ (صحیح البخاری:3700)
* آپ کی وفات میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک آپ کی وفات 26 ذوالحجۃ کو ہوئی اور ایک قول ہے کہ آپ کی وفات 27 ذوالحجۃ کو ہوئی اور بعض روایات کے مطابق آپ رضی اللّٰہ عنہ کی وفات یکم محرم الحرام کو ہوئی۔
* عمرو بن میمون رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں جب آپ رضی اللّٰہ عنہ پر حملہ ہوا تو آپ اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے:
وکان أمر الله قدرا مقدورا (سورۃ الاحزاب: 38)
(تاریخ المدینہ المنورہ لابن شبۃ:900/1)
* آپ رضی اللّٰہ عنہ کا جنازہ صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے پڑھایا۔
(تاریخ ابی زرعہ الدمشقی: ص 86)
* آپ رضی اللّٰہ عنہ کو اپنے پیاروں یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ دفن کیا گیا۔
✍️ محمد نثار ربانی