سوال

شوال کے چھ روزوں سے متعلق بعض لوگ احادیث پر اعتراض کرتے ہیں، اور بعض علماء کے اقوال بیان کرتے ہیں کہ یہ ثابت نہیں، برائے مہربانی دلائل سے وضاحت کیجیے! نیز یہ بھی بتائیں کہ یہ روزے کب رکھے جائیں؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

 شوال کے چھ روزوں کی احادیث میں بہت فضیلت بیان ہوئی ہے، ذیل میں اس سے متعلق احادیث پیش خدمت ہیں، اور ساتھ اس متعلق کیے جانے والے بعض اشکالات کی وضاحت بھی موجود ہے۔

1. عن أبي أيوب الأنصاري رضي الله عنه أنه حدَّثه أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قال: “من صام رمضان ثم أَتبعَه ستًّا من شوال كان كصيام الدهر”. [صحیح مسلم :1164]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے بھی چھ روزے رکھے، اس نے گویا پوری زندگی روزے رکھے۔
اس حدیث پر اعتراض کیا گیا ہے کہ اس کی سند میں سعد بن سعید انصاری راوی ضعیف ہے، جس کا جواب یہ ہے کہ سعد بن سعید مختلف فیہ راوی ہے، شعبہ وغیرہ اجل ناقدین نے اس کی توثیق کی ہے، جبکہ احمد و ابو حاتم وغیرہ نے اس کی تضعیف کی ہے، لیکن یہ تضعیف شدید نہیں، ان کے متعلق تضعیف ِشدید کے جو اقوال ہیں وہ ثابت نہیں ہیں۔ لہذا اس راوی میں اگر ضعف خفیف مان بھی لیا جائے، تو اس کی یہ روایت کئی ایک وجوہات سے درست ہے۔مثلا: اس کو اس سے روایت کرنے والے شعبہ اور ابن مبارک جیسےجلیل القدر محدثین وعلما ہیں، بلکہ ابن مبارک نے تو اس کی ’تحسین‘ کی ہے۔ اگر یہ روایت ضعیف ہوتی تو یہ ائمہ کرام اس کی وضاحت کردیتے۔ دوسری بات سعد بن سعید یہ روایت بیان کرنے میں اکیلا نہیں، بلکہ عبد ربہ بن سعید (السنن الکبری للنسائی(2878) اور یحی بن سعید(مسند الحمیدی(382) وغیرہما نے اس کی متابعت کی ہے۔ لہذا یہ روایت حسن درجے سے کم نہیں، جیسا کہ ابن مبارک اور ترمذی(رقم759) نے فرمایا، بلکہ امام مسلم نے اسے صحیح میں نقل کیا، اور صحیحین کے متعلق یہ بات معروف ہے کہ وہ ضعیف راوی سے بھی کوئی حدیث لیں، تو اس میں وہی روایت اختیار کرتے ہیں، جس کا قرائن سے صحیح ہونا ثابت ہو۔

2. عن ثوبان أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قال: “صيام شهرٍ بعشرة أشهرٍ، وستةُ أيام بعدهن بشهرين، فذلك تمام سنة” يعني شهر رمضان وستة أيام بعده۔ [مسند الدارمی:1762،صحیح ابن خزیمۃ :2115]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (رمضان کے) مہینے کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں، جبکہ بعد والے (شوال کے) چھ دن دو مہینوں کے برابر ہیں، یوں سال مکمل ہوجاتا ہے۔
یہ روایت بالکل صحیح ہے، جیساکہ ابن خزیمۃ وغیرہ نے اس کی تصحیح کی ہے۔

3. عن أبي هريرة عن النبي – صلى الله عليه وسلم – قال: “من صام رمضان وأتبعَه بستٍّ من شوال فكأنما صام الدهر”.[مسند البزار:8334]

جس نے رمضان کے بعد شوال کے بھی چھے روزے رکھے، اس نے گویا پوری زندگی روزے رکھے۔
یہ حدیث بھی مختلف طُرُق سے مروی ہے، اور صحیح یا حسن درجے سے کم نہیں۔ امام منذری نے اس کی تصحیح کی ہے۔ (الترغیب والترہیب (1459)

4. عن جابر بن عبد الله قال سمعتُ رسول الله – صلى الله عليه وسلم – يقول: “من صام رمضان وستًّا من شوال فكأنما صام السنة كلَّها”. [مسند احمد:14302، 14477، 14710]

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: جس نے رمضان کے مہینے، اور شوال کے چھ روزے رکھے، گویا پورے سال کے روزے رکھے۔
اس کی سند میں عمرو بن جابر راوی متکلم فیہ ہے، لیکن یہ حدیث دیگر شواہد کی بنا پر حسن لغیرہ کے درجہ میں ہے۔امام احمد نے شوال کے روزوں سے متعلق اس حدیث ِجابر اور دیگر احادیث سے احتجاج کیا ہے۔ (المغنی لابن قدامہ (4/ 439)
شوال کے چھ روزوں سے متعلق امام دمیاطی کی مستقل تصنیف بھی ہے، جس میں انہوں نے اس متعلق احادیث کو متابعات وشواہد سمیت جمع کیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ شوال کے چھ روزوں سے متعلق احادیث بالکل واضح ہیں۔ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ عید الفطر کے موقعہ پر ان روزوں کی ترغیب بھی دلایا کرتے تھے۔(مشكل الآثار(6/ 123، 124) اسی طرح حسن بصری کے سامنے جب ان کا ذکر ہوتا، تو فرماتے کہ ان سے تو اللہ تعالی پورے سال کا ثواب عنایت فرمادیتے ہیں۔( سنن الترمذی3/123)
امام ابو حنیفہ اور امام مالک سے ان روزوں کی کراہت منقول ہے، لیکن واضح احادیث کی موجودگی میں ان ائمہ کرام کی رائے کو اہمیت نہیں دی گئی۔ امام مالک کے شاگرد شافعی، ان کے شاگرد احمد ،اور دیگر کئی محدثین و فقہا کے نزدیک یہ روزے مستحب ہیں، بلکہ خود احناف اور مالکی فقہا و علما بھی اپنے ائمہ کرام کی آرا پر اصرار کی بجائے ان روزوں کی سنیت و استحباب کے قائل رہے ہیں۔تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو [آثار المعلمی: 18/ 219-273] موجود ہے۔
 شوال کے روزے کب رکھنے چاہییں؟
2 شوال سے لیکر پورے مہینے میں ایک ساتھ ہی، یا الگ الگ کسی بھی وقت رکھے جاسکتے ہیں۔ صحیح موقف یہی ہے۔البتہ بعض اہل علم کا یہ خیال ہے کہ عيد کے فوری بعد شوال کے روزے اکٹھے چھے رکھنے چاہییں، علیحدہ علیحدہ نہیں۔ بعض کا یہ بھی خیال ہے کہ عید کے فوری بعد نہیں رکھنے چاہییں، بلکہ بہتر یہ ہے کہ ایام بیض کے ساتھ ملا کر رکھ لیے جائیں، یعنی 10 شوال سے 15 تک. یا پھر 13 شوال سے 18 تک.
بہرصورت صحیح بات وہی ہے، جو شروع میں عرض کردی. بعد میں ذکر کردہ دو باتوں کا خیال رکھ لیا جائے، تو ٹھیک.. ورنہ ضروری نہیں. ( دیکھیں: لطائف المعارف لابن رجب: 218، 219)
 اگر رمضان کے روزےرہتے ہوں، تو پہلے وہ ادا کرنے چاہییں، پھر شوال کے روزے رکھیں، افضل اور بہتر طریقہ یہی ہے۔ لیکن اگر رمضان کی قضا مشکل ہو، اور بعد میں دینے کا ارادہ ہو، تو پھر بھی شوال کے چھے روزے رکھ لینے چاہییں۔
یاد رہے، رمضان کی قضاء، اور شوال کے روزے، یہ الگ الگ رکھنے پڑیں گے. ایک رکھنے سے دوسرے کی فضیلت حاصل نہیں ہوگی۔ کیونکہ یہ دونوں ملا کر سال کے روزے بنتے ہیں۔
 شوال کے روزوں کے فوائد:
1۔ رمضان اور شوال کے روزے مل کر پورے سال، بلکہ پوری زندگی کے روزے بن جاتے ہیں۔
2۔ یہ نفلی روزے رمضان کے لیے ویسے ہی ہیں، جیسے فرض نماز کے لیے سنتیں اور نوافل ہوتے ہیں، کہ ان سے کمی کوتاہی پوری ہوجاتی ہے۔
3۔ رمضان کے بعد شوال میں بھی روزے، رمضان کی قبولیت کی ایک طرح کی علامت ہے۔ کیونکہ نیکی کے بعد نیکی.. قبولیت کی علامت ہوتی ہے۔
4۔ شوال کے روزے، رمضان میں کی گئی عبادت پر اللہ کی شکر گزاری کا بھی ایک ذریعہ ہے۔
5۔ شوال کے روزوں سے گویا انسان شیطان کو مایوس کردیتا ہے کہ، وہ رمضان کے بعد انسان کو اللہ کی عبادت سے غافل کردے گا. بلکہ شوال میں بھی اللہ کی عبادت میں مصروف ومشغول ہو کر انسان یہ پیغام دیتا ہے، کہ وہ کسی خاص دن یا مہینے نہیں، بلکہ ہر وقت اللہ کی عبادت میں مصروف رہنا چاہتا ہے۔ (دیکھیں: لطائف المعارف لابن رجب: 220-224)
اللہ تعالی سب کو یہ فضیلت والے روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف سندھو حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ