سوال

آج سے تین ماہ پہلےمیرا شوہر سےجھگڑا ہو ا تھا۔  جھگڑا اتنا بڑھ گیا کہ بات طلاق تک آ گئی ۔ چونکہ ہمارے چار بچے تھے ۔اس لئے فیملی میں سے کچھ بڑوں نےبچوں کی خاطر  ہماری صلح کرانی چاہی۔  میرے شوہر نے میرے اوپر کچھ بہتان اور الزامات لگائےہوئے تھے ۔  جب ان الزامات کا ان سے ثبوت مانگا گیا،  تو وہ ثبوت نہ دے سکے ۔ پھر یہ فیصلہ ہوا کے میرے شوہرنے جو غلط الزام لگائے ہیں ،ان کا  مجھے  جرمانہ دیں گے ۔میرے شوہر نے صلح کی خاطر مجھے جرمانہ تو دے دیا ۔ لیکن اب مجھے ایسے لگتا ہے ،کے جرمانہ کی وجہ سے وہ دل سے ناراض ہیں ۔آپ سے پوچھنا یہ ہے، کے کیا یہ پیسے میرے لئے جائز ہیں  ؟ یا مجھے میرے شوہر کو واپس کر دینے چاہییں؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

گھر کا آباد رکھنا میاں اور بیوی دونوں کے ذمہ ہوتا ہے۔ اور اس کی آبادی کے لیے ضروری ہے، کہ دونوں ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں۔ اور اپنے اندر تحمل وبردباری اور برداشت کا مادہ پیدا کریں۔چھوٹی چھوٹی باتوں کو ویسے ہی نظرانداز کر دیا جائے۔اگر ایسا نہ کیا جائے تو اس کا گھریلو معاملات اور بچوں پر منفی اثر پڑتا ہے۔

میاں بیوی کو ایک دوسرے پر الزام تراشی سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ لیکن  اگر بات کسی وجہ سے الزامات اور بہتان تراشی پر آجائے، تو ایک دوسرے کو اچھے طریقے سے مطمئن کرنا چاہیے۔صورت مسؤلہ میں جو جرمانہ عائد کیا گیا ،اور بیوی نے وصول کیا ہے، یہ  نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اور اگر انہوں نے کر بھی دیا تھا۔ تو بیوی کو چاہیے تھا، کہ وہ وصول ہی نہ کرتی۔ نہ ہی اس طرح کی باتوں کی جرمانے سے تلافی ہو سکتی ہے۔  جرمانے اور سزائیں،  محبت و الفت کے لیے زہر قاتل ہیں۔

اب جیسا کہ خود بیوی نے محسوس کر لیا ہے ، کہ اس جرمانے کی وجہ سے ، خاوند کے دل میں رنجش ہے۔ لہذا اس کو چاہیے کہ وہ جرمانہ اپنے خاوند کو واپس کر دے۔ اور اس سے خندہ پیشانی سے پیش آئے۔  قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

“خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً.”[روم:21]

’تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ، اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی ہے،۔

خاوندکو بھی چاہیے کہ وہ خندہ پیشانی سے پیش آئے۔ اور دل میں اگر ناراضگی ہے تو اس کو ختم کردے۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

“خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي”.[سنن ابن  ماجہ:1977]

’تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو، اور تم سب کی نسبت میں اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہوں‘۔

لہذا دونوں میاں بیوی کوشش کریں کہ غلط فہمیوں، نفرتوں اور جرمانوں  والے ماحول کو بھول کر، نئے سرے سے گھر میں الفت و محبت اور یگانگت کا ماحول پیدا کیا جائے۔ اور دونوں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں، اور اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی پر توجہ دیں۔ اللہ تعالی توفیق دے، اور آپس میں محبت و الفت پیدا فرمائے، اور گھر کو جنت نظیر بنائے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ