سوال

ایک آدمی کے بینک اکاؤنٹ میں بینک نے سود ادا کیا ہوا ہے۔ آدمی نے سود کی رقم پر زکوۃ ادا کی ہوئی ہے۔

کیا یہ سود کی رقم اپنے استعمال میں لائی جا سکتی ہے؟اگر نہیں تو اس رقم کا مصرف کیا ہے ؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • بینک میں جو اکاؤنٹ کھلوائے جاتے ہیں وہ دو طرح کے ہوتے ہیں۔

نمبر1 کرنٹ اکاؤنٹ:  اس میں پیسے بطور امانت بینک میں پڑے رہتے ہیں۔  نہ توان میں زکوۃ کٹوتی  ہوتی ہے، اور نہ ہی اس پر کوئی  اضافی پیسے (سود)  دیے جاتےہے۔

نمبر2 : سیونگ اکاؤنٹ :اس میں وہ سود بھی جمع کرتے ہیں، اور اپنے تئیں زکوۃ بھی کاٹتے ہیں، حالانکہ وہ شرعی  زکوۃ نہیں ہوتی۔مثال کے طور پر آپ کے اکاؤنٹ میں ایک لاکھ روپے پڑےہیں، تو سال کے بعد وہ آپ کو پانچ ہزار روپے سود دیتے ہیں۔ اور سال گزرنے کے بعد وہ اڑھائی ہزار روپیہ ایک لاکھ کے پیچھے کٹوتی بھی کرتے ہیں،  لیکن آپ کے اکاؤنٹ میں پھر بھی ایک لاکھ اڑھائی ہزار روپیہ پڑا رہتا ہے۔اگر شرعی طور پر زکوۃ کاٹی جاتی تو جیسے آپ کے اکاؤنٹ میں ایک لاکھ روپے پڑے تھے، تو اڑھائی ہزار روپے  کاٹ کر باقی ساڑھے 97 ہزار روپے ہونے چاہییں تھے۔ اس کا  صاف مطلب یہ ہے کہ انہوں نے آپ کے مال سے زکوۃ نہیں کاٹی بلکہ اپنے دیے ہوئے سود سے کچھ حصہ واپس لے لیا ہے۔

  • رہا دوسرا مسئلہ کیا سود کی رقم کو استعمال کیا جا سکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قطعا استعمال نہیں کیا جاسکتا۔سود کی رقم کو استعمال کرنا ناجائز اور حرام ھے؛کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

{وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ} [البقرة: 279]

اگر تم توبہ کرلو، تو تمہارے لیے  (سود کے بغیر) اصل مال ہے۔

لہذا سود بالکل حرام ہے۔

  • البتہ یہ رقم ان ظالموں کو واپس کرنے کی بجائے، ثواب کی نیت کیے بغیر رفاہی کاموں میں صرف کرنی چاہیے ۔مثلا قبرستان کی دیوار بنادے، کوئی سڑک بنا دے، یا کوئی غریب سودی قرضے تلے دبا ہوا ہے، تو اس کی جان چھڑانے کے لیے اس مال سے مدد کردی جائے ۔ لیکن خود  کسی بھی صورت استعمال میں نہ لائے۔
  • بعض حضرات اس آیت سے:

{فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ} [البقرة: 275]

’’جس کے پاس اللہ کی طرف سے نصیحت آگئی اور وہ سودی لین دین سے رک گیا،تو جو کچھ باقی ہے اسی کے لئے ہے‘‘۔

اس سے استدلال کرتے ہیں کہ سودی کاروبار کرنے والا شخص توبہ کرکے آئندہ کے لیے  اسےترک کردے، تو اس کے پاس موجود سودی مال اس کے لئے حلال اور طیب ہے۔حالانکہ ایسی بات نہیں ہے، ہمارے مطابق یہ استدلال ہی غلط ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ جو باقی ہے وہ حلال ہے، بلکہ ساتھ ہی یہ ہے: {وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ} کہ اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ یعنی چاہے تو اسے معاف کردے، چاہے تو اسے سزا دے۔لہذا اس سے سود کی حلت کا استدلال درست نہیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ