سوال

SRA (Sale Ranking Assistant)   یہ ایک پیسے کمانے کی ایپلیکیشن ہے اس میں محتلف پیکجز ہوتے ہیں،  مثال کے طور پر  جب ہم سو ڈالر کا  پیکج خریدتے ہیں تو ہمیں روزانہ کی بنیاد پر دو ڈالر سے  لے کر چار ڈالر تک ملتے ہیں جو فکس نہیں ہیں،کبھی دو ڈالر ملتے ہیں کبھی تین ڈالر ملتے ہیں اور روزانہ کا اس میں ہمیں ٹاسک دیا جاتا ہے کہ آپ نے مختلف اشیاء کو ریٹنگ دینی ہوتی ہے، کپڑے موبائل کیبل اور الیکٹرونکس اشیاء ہوتی ہیں۔

اور یہ ایپ بڑے ادارے amazon ، ebay  وغیرہ کی پروڈاکٹس کو بھی ریٹنگ دیتی ہے۔   اس میں جب ہم  withdrawal  لیتے ہیں تو ہمیں  withdraw  binance میں ملتا ہے اور USDT میں ہوتا ہے اور اس کو ہم فروخت کر کے Easypaisa میں ٹرانسفر کرتے ہیں۔

اس ایپلیکیشن میں ریفرل سسٹم ہے یہ اُنکی شرط نہیں ہے اگر کوئی بندہ ریفرل نا بھی لائے پھر بھی اس کی ارننگ ہوتی رہتی ہے، ریفرل کے ذریعے صرف ہم زیادہ earn کر سکتے ہیں۔ اس کے owner کا کہنا ہے ہم آپ کی انویسٹمنٹ e-commerce business میں انویسٹ کر رہے ہیں۔

مفتی صاحب برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

معاملات اور کاروبار میں اللہ تعالی نے وسعت رکھی ہے، اور عموما لین لین اور تجارت کی صورتوں  کو جائز قرار دیا ہے الا یہ کہ اس میں کوئی خامی یا قباحت پائی جاتی ہو، تو شریعت نے اسے ناجائز قرار دیا ہے۔  اس سلسلے میں  شریعت نے کچھ عمومی اصول بتادیے ہیں کہ کسی بھی کاروبار یا لین دین میں پراڈکٹ یا اس کی قیمت میں غرر، ضرر اور جہالت نہیں ہونی چاہیے۔ غرر یعنی دھوکہ دہی، ضرر یعنی کسی کو نقصان پہنچایا جا رہا ہو، اور جہالت یعنی پراڈکٹ یا اس کی قیمت  مجہول یعنی معلوم اور واضح  نہ ہو ۔

صورتِ مذکورہ میں جس ایپ اور اس کے طریقے کار کا ذکر کیا  گیا ہے، ہمارے نزدیک اس میں کئی ایک قباحتیں موجود ہیں، مثلا:

1۔ اس میں غرر اور ضرر ہے۔ یعنی اس میں صارف کو پیکجز خریدنے کا کہا جاتا ہے، حالانکہ جب اس نے ایپ کے ذریعے محنت مزدوری کرنی ہے، تو اس سے پہلے ڈالر کس چیز کے مانگے جاتے ہیں؟ یہ صارف کو بلیک میل اور نقصان پہنچانے کی ایک صورت ہے کہ کمائی کا جھانسہ دے کر اسے ہی لوٹ لیا جائے۔

2۔ اس میں جہالت بھی ہے، یعنی کہا جاتا ہے کہ ہم آپ کے پیسے ای کامرس کاروبار میں انویسٹ کرتے ہیں، حالانکہ صارف کو کوئی علم نہیں کہ اس کے پیسے سے کیا خریدا جاتا ہے اور اسے کتنے میں بیچا جاتا ہے، اور اس میں نفع و  نقصان کی کیا شرح ہے؟ نہ اسے پراڈکٹ کا پتہ ہے نہ اس کی قیمت کا کوئی اندازہ!

3۔ اس میں ظاہر کیا جاتا ہے کہ صارف بطور اجیر (مزدور) کام کر رہا ہے، جس پر اسے پیسے ملتے ہیں، جبکہ ساتھ اس سے پیسے مانگ کر، اسے کاروباری  پارٹنر ہونے کا بھی جھانسہ دیا جاتا ہے، حالانکہ شریعت میں دو معاہدوں کو لازم ملزوم کرنا جائز نہیں کہ اگر تم یہ خریدو گے تو تمہیں یہ کام ملے گا، وغیرہ۔

یہ بنیادی تین وجوہات ہیں، ورنہ اگر اس میں ریفرل سسٹم پر غور کیا جائے اور اسی طرح پراڈکٹ ریٹنگ کو دیکھا جائے تو عین ممکن ہے کہ اس میں مزید قباحتیں نمایاں ہوں۔مختصر یہ کہ مذکورہ کاروبار درست نہیں۔ اسلام اس قسم کے دھوکہ دہی اور چالاکی پر مبنی کاموں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا، بلکہ اسلام صاف شفاف اور خیر خواہی پر مبنی معاملات کی ترغیب دلاتا ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ