سوال

سٹیٹ بینک نے پالیسی دی ہے کہ کوئی بھی شہری 14 لاکھ تک قرض بلا سود 20 سال کی اقساط پر لے سکتا ہے پھر سوال پیدا ہوا کہ اگر قرض لینے والا فوت ہو جائے تو کیا ہو گا تو جواب یہ ہے کہ بنک انشورڈ ہے سو حکومت ادا کرے گی اور یہ بات یقینی ہے کہ سود بھی نہیں اور انشورنس کا تعلق بھی قرض لینے والے سے نہیں کیا ایسا قرض لینا جائز ہے ؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

بہتر تھا کہ آپ نے سٹیٹ بینک کی جس اسکیم کا ذکر کیا ہے، اس کی تفصیلات مہیا کی جاتیں، کیونکہ ہمارے علم کے مطابق جو اس قسم کے قرضے دیے جا رہے ہیں یہ اسکیم ’میرا پاکستان میرا گھر’ کے عنوان سے لانچ ہوئی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر اس حوالے سے درج ذیل عبارت موجود ہے:

’’یہ اسکیم روایتی اور اسلامی دونوں شکلوں میں دستیاب ہے اور بینک اس کے تحت پست سے متوسط آمدنی والے آبادی کے طبقات کو بہت کم فنانسنگ ریٹس پر گھر کی تعمیر اور خریداری کے لیے فنانسنگ فراہم کرسکتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک حکومت پاکستان اور نیا پاکستان ہاؤسنگ اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (نیفڈا) کا عملی شراکت دار ہے‘‘۔

اس کے علاوہ مختلف اعلانات اور منصوبہ جات کے ذکر میں واضح طور پر ’شرح مارک اپ’ اور ’فنانسنگ ریٹس’ کا ذکر ہے۔  جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ سود سے مبرا نہیں ہے، کیونکہ آپ منافع، شرح مارک اپ، فنانسنگ ریٹس وغیرہ کوئی بھی نام دیں، قرض دے کر واپسی پر لیا گیا اضافہ کم ہو یا زیادہ سود ہی کہلائے گا۔

آج تک کوئی بھی بینک نہیں دیکھا (بھلا اس نے ساتھ اسلامی کا سابقہ لاحقہ ہی کیوں نہ لگایا ہو) جو بلا سود قرضے دیتا ہوں۔

کیونکہ سارے کے سارے بینکوں کا تعلق ورلڈ بینک کے ساتھ ہے، جس کے نظام کی بنیاد ہی سود پر ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتيانِ كرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ