سوال (984)

ایک لمبی چوڑی تحریر ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام سے مچھلی کھانے کی خواہش کا اظہار کیا، لیکن پھر سفر لمبا ہونے کی وجہ سے منع بھی کر دیا، لیکن غلام پھر بھی چوری چھپے گھوڑے پر سوار ہو کر چلا گیا اور مچھلی لے آیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا میری وجہ سے تم نے ایک جانور کو اتنی تکلیف دی ہے.. جاؤ اس کو صدقہ کر دو، میں یہ مچھلی نہیں کھاؤں گا۔
کیا یہ واقعہ مستند ہے؟

جواب

یہ واقعہ بعض کتبِ حدیث و تاریخ میں موجود ہے۔ امام احمد کے صاحبزادے عبد اللہ بیان کرتے ہیں:

«وَأُخْبِرْتُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَهْبٍ قثنا ابْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، يَعْنِي أَسْلَمَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَوْمًا: لَقَدْ خَطَرَ عَلَى قَلْبِي شَهْوَةُ الطَّرِيِّ مِنْ حِيتَانٍ، قَالَ: فَيَخْرُجُ يَرْفَأُ فَرَحَلَ رَاحِلَةً لَهُ، فَسَارَ لَيْلَتَيْنِ مُدْبِرًا وَلَيْلَتَيْنِ مُقْبِلًا، وَاشْتَرَى مِكْتَلًا فَجَاءَ. قَالَ: وَيَعْمِدُ يَرْفَا إِلَى الرَّاحِلَةِ فَغَسَلَهَا، فَقَالَ عُمَرُ: انْطَلِقْ حَتَّى أَنْظُرَ إِلَى الرَّاحِلَةِ، فَنَظَرَ عُمَرُ ثُمَّ قَالَ: نَسِيتَ أَنْ تَغْسِلَ هَذَا الْعَرَقَ الَّذِي تَحْتَ أُذُنِهَا، ‌عَذَّبْتَ ‌بَهِيمَةً مِنَ الْبَهَائِمِ فِي ‌شَهْوَةِ ‌عُمَرَ، لَا وَاللَّهِ لَا يَذُوقُهُ عُمَرُ، عَلَيْكَ بِمِكْتَلِكَ». [فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل 1/ 319]

اسی کو ابن عساکر نے اپنی سند کے ساتھ بیان فرمایا ہے:

«أخبرنا أبو سهل محمد بن إبراهيم أنا أبو الفضل الرازي أنا جعفر بن عبد الله نا محمد بن هارون نا يونس بن عبد الأعلى نا عبد الله بن وهب به». [تاريخ دمشق لابن عساكر 44/ 301]

معروف تابعی اسلم القرشی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار عمر رضی اللہ عنہ نے تازہ مچھلی کی خواہش کا اظہار کیا، تو ان کے غلام ’یرفأ’ نے سواری تیار کی اور دو راتیں جانے اور دو راتیں آنے کا سفر طے کر کے مچھلی کا تھیلا بھر کر خرید لایا، اور سواری کو نہلا دیا (تاکہ اس پر سفر کی تھکاوٹ نظر نہ آئے) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آئیں ذرا سواری کا جائزہ لیں، اور دیکھتے ہی فرمایا: آپ کانوں کے نیچے سے پسینہ دھونا بھول ہی گئے؟! تم نے عمر کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ایک جانور کو عذاب میں مبتلا کیا ہے، اللہ کی قسم! عمر اس کو چکھے گا بھی نہیں، جاؤ اپنا تھیلا لے جاؤ’!
اس واقعے کو اسلم کے پوتے عبد الرحمن بن زید نے ’عن أبیہ عن جدہ’ کی سند سے بیان کیا ہے، جس میں اس کا باپ زید اور دادا اسلم تو دونوں ثقہ اور معتبر ہیں، لیکن ان کا حوالہ دینے والا عبد الرحمن بذاتِ خود ضعیف ہے۔
ایک معاصر محقق اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

«رواه أحمد/ فضائل الصحابة 1/ 319، 320، ابن عساكر/ تاريخ دمشق ص 256، 257، وفي إسناديهما عبدالرحمن بن زيد بن أسلم ضعيف. تق 98. وبقية رجاله عند ابن عساكر ثقات. قال: أخبرنا أبو سهل محمّد بن إبراهيم (سعدوية)، أنا أبو الفضل الرّازي (عبد الرّحمن بن أحمد بن الحسن العجلي)، أنا جعفر بن عبد الله (الفناكي)، نا محمّد ابن هارون (الرّوياني)، نا يونس بن عبد الأعلى، نا عبد الله بن وهب، نا عبد الرّحمن بن زيد عن أبيه عن جدّه، قال: قال عمر … الأثر. فالأثر ضعيف». [دراسة نقدية في المرويات الواردة في شخصية عمر بن الخطاب وسياسته الإدارية 1/ 273]

البتہ چونکہ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے، جس سے کوئی شرعی مسئلہ منسلک نہیں ہے، اس وجہ سے ایسے واقعات اور حکایات میں اس قسم کی کمزوری کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کئی ایک اہل علم نے اسے پوتے عبد الرحمن یا اس کے دادا اسلم یا صاحب واقعہ عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بالجزم بیان کیا ہے۔ کچھ حوالہ جات پیشِ خدمت ہیں:

«وعنه أنه اشتهى سمكًا طريًّا وأخذ يرقى راحلة، فسار ليلتين مقبلًا وليلتين مدبرًا واشترى مكتلًا فجاء به، وقام يرقى إلى الراحلة يغسلها من العرق فنظرها عمر فقال: عذبت بهيمة من البهائم في شهوة عمر! والله لا يذوق عمر ذلك». [الرياض النضرة في مناقب العشرة للمحب الطبري 2/ 366]

«وقال عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، عن أبيه، عن جده، قال عمر: لقد خطر على قلبي شهوة السمك الطري، قال: ورحل يرفأ راحلته وسار أربعا مقبلا ومدبرا، واشترى مكتلا فجاء به، وعمد إلى راحلته فغسلها فأتى عمر فقال: انطلق حتى أنظر إلى الراحلة، فنظر وقال: نسيت أن تغسل هذا العرق الذي تحت أذنها، ‌عذبت ‌بهيمة في ‌شهوة ‌عمر، لا والله لا يذوق عمر مكتلك». [سير أعلام النبلاء للذهبي – الخلفاء الراشدون/ 82 ط الرسالة]
«وقال يوما عمر بن الخطاب رضي الله عنه: خطر على قلبي شهوة الحيتان فركب يرفأ راحلة إلى الجار فسار أربعاً وأتى بها، فرأى عمر رضي الله عنه الراحلة فقال: ‌عذبت ‌بهيمة من البهائم في ‌شهوة ‌عمر، والله لا يذوقه عمر». [الروض المعطار في خبر الأقطار للحميري ص153]
«وقال أسلم: قال عمر: لقد خطر على قلبي شهوة السمك الطري، قال: فرحل يرفأ1 راحلته، وسار أربعًا مقبلاً، وأربعًا مدبرًا، واشترى مكتلاً، فجاء به، وعمد إلى الراحلة، فغسلها، فأتى عمر، فقال: انطلق حتى أنظر إلى الراحلة، فنظر وقال: أنسيت أن تغسل هذا العرق الذي تحت أذنيها، ‌عذبت ‌بهيمة في ‌شهوة ‌عمر؟! لا والله لا يذوق عمر مكتلك». [تاريخ الخلفاء للسيوطي ص104]

اسی طرح الجامع الکبیر للسیوطی اور کنز العمال میں بھی یہ اثر مذکور ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسے بطور تاریخی واقعہ بیان کرنے میں حرج نہیں۔ لیکن جتنا روایات میں بیان ہوا ہے، اسی پر اکتفا کیا جائے۔ سوال میں جس تحریر کی طرف اشارہ ہے، اس میں زیبِ داستان کے لیے کئی ایک باتیں اپنی طرف سے اضافہ کر دی گئی ہیں۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ