سوال

میرے شوہر نے “میں نے تمھیں طلاق دی” کا لفظ دو مختلف بار،کئی ماہ کے وقفے سے بولا ہے، اور پھر دو بارہ کہا “میں تمھیں طلاق دیتا ہوں ” تو میں نے کہا مجھے تو طلاق ہوگئی۔ پھر کہتے نہیں میرا مطلب ہے کہ میں تمھیں طلاق لکھ کر دیتا ہوں۔ ابھی میں نے دی نہیں ۔اس دوران ہم کبھی بھی ایک دوسرے سے دور نہیں رہے، ایک ہی چھت کے نیچے رہے۔ اور وہ نہیں مانتے کہ انہوں نے چار بار طلاق کا لفظ منہ سے نکالا ہے۔ جب آخری بار طلاق کہا تھا پھر مانے نہیں تھے۔ تب میں بے حد پریشان تھی کہ اب میں ان پر حرام ہوں۔ پھر میں نے ایک اہل حدیث عالم کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کیا، انہوں نے تفصیل سے سنا اور کہا کہ: اگر خاوند نہیں مان رہا ، وہ کہ رہا ہے کہ میرا یہ مطلب نہیں ، وہ مطلب ہے، تو اسکو ایک آخری چانس دیں ۔اللہ نے دین میں سختی نہیں بڑی وسعت رکھی ہے۔ انہی دنوں میں جب میں بہت پریشان تھی میرے چار بچے تھے۔اور مجھے خواب آیا کہ میں ایک خشک دریا میں کھڑی ہوں اور بہت تیزی سے پانی بڑے خوفناک لہریں بن کر میری طرف آرہا ہے ،جیسے ہی وہ پانی مجھے اپنی لپیٹ میں لینے لگتا ہے، اچانکے میں دیکھتی ہوں کہ میں دریا سے باہر کھڑی ہوں ،اور وہی پانی بہت نرمی اور خوبصورتی سے بہنے لگتا ہے، اور میری گود میں ایک بیٹی ہے، چھوٹی سی جیسے پہلے دن کی ہو۔ تو پیچھے سے کسی کی آواز آتی ہے “یہ تو اسی نسل سے ہے” اور اسی مہینے مجھ پر اللہ کی رحمت ہوئی، اور اللہ نے مجھے ایک بیٹی بھی دے دی، اور میرے دل کو اللہ نے سکون بھی دے دیا ۔لیکن مجھے کبھی کبھی یہ خیال تنگ کرتا ہے، کہ کہیں میرا ان سے تعلق ناجائز تو نہیں رہا، اس لیے مسئلہ کلیر کرنا چاہ رہی ہوں۔

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اس سوال میں صراحت ہے کہ شوہر نے دومختلف جگہوں پرکئی ماہ کے وقفے سے بولا ہے کہ میں نے تمہیں طلاق دی۔
لیکن اب وہ کہتا ہے کہ میرا مطلب یہ نہیں تھا کہ میں نے تمہیں طلاق دی بلکہ اسکا مطلب تھا کہ میں تمہیں لکھ کر طلاق دیتا ہوں۔
یہ تو وہ اقرار کرتا ہے کہ اس نے لفظ طلاق کا بولا ہے۔لیکن اس کا مطلب اب خود کشید کر رہا ہےکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ میں تمہیں لکھ کر طلاق دیتا ہوں۔کیونکہ اس نے صراحت کے ساتھ طلاق کا لفظ بولا ہے اس لیے ہمارے رجحان کے مطابق طلاق ہو چکی ہے۔اگر اس نے مختلف مجالس میں اس لفظ کو تین مرتبہ استعمال کیا ہے،تو بیوی اس پر حرام ہے۔ اب اس کے ساتھ صلح اور نکاح جدید بھی نہیں ہو سکتا۔اوران دونوں کا اکٹھا رہنا ناجائز اور حرام ہے، چاہے جتنی بھی اس کی تاویلیں کی جائیں۔
ہاں اگر کنایہ کا لفظ استعمال کرتا تو پھر اس کی نیت کو دیکھا جاتا۔
لیکن صورت مسؤلہ میں اس نے طلاق کا لفظ صراحت کے ساتھ بولا ہے، اس لیے اب اس کی نیت کی طرف نہیں دیکھا جائے گا۔
صراحت کے ساتھ طلاق کا لفظ بولنا ،اور پھر اپنی طرف سے مطلب کشید کرنا ،یہ چور دروازہ کھولنا ہے۔ جس کو بند کرنا ضروری ہے۔
طلاق میں اصل تو یہی ہے کہ شوہر کی بات کا اعتبار کیا جائے گا۔لیکن اگر بیوی کو یقین ہو کہ شوہر نے اسے طلاق دی ہے، اب جان بوجھ کر تاویلیں یا غلط بیانی کر رہا ہے، تو پھر شوہر کی غلط بیانی کا اعتبار نہیں ہوگا۔
اور ایسی صورت میں طرفین کو چاہیے کہ بیٹھ کر لڑکے کو سمجھائیں، اور دونوں کو الگ کردیں۔ کیونکہ طلاق کے بعد دونوں کے اکٹھے رہنے کا کوئی جواز نہیں ۔ لیکن اگر لڑکا یا اس کا خاندان یا کوئی بھی علیحدگی پر راضی نہ ہورہے ہوں، اور واقع شدہ طلاق کو تسلیم کرنے سے انکاری ہوں، تو پھر لڑکی خلع کے ذریعہ اپنے آپ کو محفوظ کرسکتی ہے۔
جس عالم دین نے یہ کہا ہے کہ ایک چانس دے دیا جائے، یہ انتہائی محل نظر ہے۔جب خاوند نے صراحت کے ساتھ طلاق کا لفظ بول دیا ہے تو پھر چانس کا کیا معنی رہ جاتا ہے؟
اس لئے ہمارے رجحان کے مطابق ان کا اکٹھے رہنا ناجائز اور حرام ہے ،صلح بھی نہیں ہوسکتی ،اور نکاح جدید بھی نہیں ہو سکتا۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ