رضوان رفیق… جی ہاں کتابِ مدینہ کا ایک حسیں ورق رضوان رفیق بھی ہے جسے آج رحمہ اللہ لکھتے ہوئے دل کانپ رہا، ہاتھ لرز رہا، جذبات بےقابو اور آنکھیں نم ہو رہی ہیں:
ع : مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
سن دو ہزار پانچ عیسوی اور جولائی، اگست کے مہینوں میں اولین ملاقاتیں ہوئیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مدینہ یونیورسٹی میں نیا نیا داخلہ ہوا تھا اور جن حضرات کے داخلے ہوئے تھے وہ ویزے کے حصول کے لیے مارے مارے پھرتے تھے۔
قاری ابراہیم صاحب میر محمدی سے پہلے سے تعارف تھا اس لیے ان کے ہمراہ اسلام آباد سے آگے کا سفر طے کیا، وہاں کسی جگہ یکجا ہوئے تو ان کے ساتھ ایک عام سی وضع قطع کے صاحب نے آگے بڑھ کر اپنا تعارف ان الفاظ میں خود کرایا کہ میں رضوان رفیق لاہور، کماہاں سے ہوں، اس تعارف میں لفظِ کماہاں کا تلفظ کچھ اس طرح سے ادا کیا کہ مجھے ہنسی آئی جسے میں نے زیرِ لب مسکراہٹ میں تبدیل کیا… اس دوران جانے کہاں کہاں کی خاک چھانی اور اخراجات میں کمی کے لیےیاد نہیں کس کس کو ستا کر مہمان بلائے جان بنے، کئی تلخ و شیریں واقعات بھی پیش آئے اور بسا اوقات تو بلا وجہ آپس میں ٹھن جاتی تھی اور عالمِ پریشانی میں چینِ جبیں سے غمِ پنہاں کا اظہار کرتے تھے… بہت جلدی تھی اسے، سب معاملات مل کر طے کیے مگر ہم سے کچھ دن پہلے ہی ٹکٹ کنفرم کروا کر مدینہ چلا گیا… آہ فآہ ثم آہ:
ع : جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے
مدینہ منورہ میں پہلا دن تھا اور تاریخ بائیس ستمبر، فضیلۃ الاخ احمد صدیق صاحب نے بعد مغرب مجھے کمرے میں آ کر جگایا اور پہلا سوال پوچھا کہ کرکٹ کھیلنی آتی ہے، میں نے اثبات میں جواب دیا تو کھانا کھلا کر گراؤنڈ لے گئے، قاری ابراہیم اور رضوان رفیق نے اسلام آباد میں کئی بار اپنے کھیل اور فلک شگاف چھکوں کا ذکر کیا تھا، میں چونکہ ٹیسٹ پلیئر تھا اس لیے چپ چاپ ان کی سنتا رہتا تھا، پہلا دن، کھیل کا میدان چھوٹا اور ہلکے باؤلر تھے اس لیے میں سب کی جم کے پٹائی نہیں بلکہ خوب دھلائی کی، پھر چھ سال تک میں اندھوں میں کانا راجا بنا رہا ، قاری ابراہیم صاحب نے بھی اپنا خوب رنگ جمایا مگر رضوان رفیق باؤلنگ میں پٹتے اور بیٹنگ میں ناکام رہتے تھے، ویسے بھی وہ پڑھاکو اور محنتی تھے اس لیے جلد ہی کھیل سے سنیاس لیا اور کمر بستہ ہو کر علم کا بسطہ قوت سے تھام لیا اور پڑھائی میں خوب نیک نامی کمائی اور ہم:
ع: کچھ کام کیا، کچھ عشق کیا
ماہ و سال یونہی گزرتے رہے، ہمارے ممدوح میچ دیکھنے آتے تو وہاں ملاقات ہوتی تو کبھی سرِ راہ رسم ملاقات ادا کی جاتی یا مسجدِ نبوی جاتے وقت بس میں ملتے۔
احباب سوچ رہے ہوں گے کہ آج اتنے عرصے بعد غنچۂ دل کیوں کھِلا اور درِ دل پر ان صاحب کی یاد نے کیوں دستک دی؟

مزید پڑھیں: میں آج مر کے بھی بزمِ وفا میں زندہ ہوں

سو صاحبان تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ کل دورانِ تدریس ایک کلاس میں سفرِ حج کا ذکر چھڑ گیا جس پر تمام طلبہ نے بھرپور قہقہے لگائے… معاً مجھے سفرِ حج کا ایک قصہ یاد آگیا جس کا تعلق رضوان رفیق سے ہے۔
مدینہ منورہ کے فاضلین آنکھ مچولی کے اس سفر سے خوب آگاہ و واقف ہیں جس میں دل کو دھک دھک کرنے پر مجبور کر دینے والی آخری منزل جموم کی چوکی اور اس سے متصل صحراء ہے… سفرِ حج کے دوران ایک بار ڈرائیور نہایت نامعقول، ناشائستہ، بے پرواہ قسم کا نوجوان تھا جس نے دلِ وحشی پر اپنی بد اخلاقی کے ایسے نقوش مرتسم کیے ہیں کہ ایک دہائی گزرنے کے باوجود یاد آنے پر مزاج برہم اور طبیعیت مکدّر ہو جاتی ہے.
جوشِ جنوں میں ڈرائیور صاحب ہمراہیوں سے دور بہت دور نکل گئے، کار کی رفتار اس قدر زیادہ تھی کہ ہم سب ڈرے سہمے بآوازِ بلند تلبیہ پڑھنے لگ گئے اچانک موبائل فون بج اٹھا، دیکھا تو رضوان رفیق کا نمبر تھا، میں نے فون اٹھایا مگر کار کے شیشے کھلے ہونے کی وجہ سے آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، ڈرائیور کی منت سماجت کر کے رفتار کم کروائی، اس بخت مارے نے جیسے ہی رفتار کم کی ٹھاہ کی آواز سے گاڑی ڈول گئی اور چاروں اور دھواں ہی دھواں ہو گیا، اتر کر دیکھا تو ٹائر پھٹا نہیں تھا بلکہ ٹائر اور اس کے ارد گرد لوہے کی مضبوط تاریں جل کر راکھ ہو چکی تھیں.
رضوان رفیق کو فون کیا تو فرمانے لگے رفتار کم کراؤ اور ساتھ مل کر چلو.
ہائے کاش ایسا ہی کوئی فون اسے بھی آ جاتا، یہ بھی اپنی رفتار کم کرتا اور آج ہم میں ہنستا مسکراہتا موجود ہوتا، ہونی کو کون ٹال سکتا ہے مگر جواں مرگ قابل فاضل کا غم بھی تو دل سے نہیں جاتا۔ والله انا بفراقك يا رضوان لمحزونون۔

 حافظ عبد العزیز آزاد