سوال

بنام لجنۃ العلما ءِ للاءِفتاءِ( علماء فتویٰ کونسل) کے نام : وراثت کی تقسیم کا مسئلہ۔
محترم مفتیانِ کرام ! میرے والدمحترم کی وفات ۲۲ اکتوبر ۲۰۱۶؁ء کو ہوئی ۔ ان کے مال کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱۔ ٹیوٹا وٹز کار۔
۲۔۱۵ مرلہ رہائشی پلاٹ۔
۳۔۶۰۰ سے ۷۰۰ کنال زرعی رقبہ غیر کاشت شدہ۔ حتمی طور پر رقبہ کا حتمی تعین پٹواری سے کاغذات ملنے پر ہی ہو سکے گا۔
۴۔دو بھینسیں۔
۵۔ڈیڑھ کروڑ بینک کا قرضہ ، ۸۰ لاکھ کے قریب کاروباری قرضہ، ۲۰ لاکھ والد صاحب کی ایک بہن کا ، ۲۰ لاکھ ان کے ایک دوست کا ۔
۶۔ نقد ۰۰۰،۶۰ کے قریب تقریباََ
۷۔کاروبار کی نوعیت :
میں چونکہ والد صاحب کے ساتھ ۲۰۰۱؁ء سے منسلک تھا۔ ۲۰۰۵ ؁ء میں والد صاحب نے مارگلہ سے ختم کیا اور چکوال میں نئے سرے سے اپنے کام کی بنیاد ڈالی، جس کے لئے انھوں نے میرے نام سے لائسنس لیا ، مگراپنا کل سرمایہ ایک اور پراپرٹی کے کام میں لگا بیٹھے ،جس میں والد صاحب کے ساتھ فراڈہوگیا، جس کی وجہ سے اپنے کاروبار کے معاملات قرض لے کر چلائے۔ ۲۰۰۶؁ء سے باقاعدہ کاروبار کی ذمہ داری میرے پہ ڈال چکے تھے اور اپنی صحت کے مطابق میری سرپرستی کیے ہوئے تھے۔فیکٹری کی کل تعمیرات ۷۵۰۰ سکیئر فٹ ہے جس میں کچھ تیار چھت اور لینٹر پر مشتمل ہے۔مشینری کی اس وقت ( 2006ء) میں مالیت تقریباَ آٹھ لاکھ کے قریب ہو گی۔ کاروبار ادھار مال کے سرکل سے چلا رہے تھے، وسائل کی کمی کی وجہ سے۔
سوال: میری بہنوں کا مطالبہ ہے کہ والد صاحب کی زمین کے علاوہ جو کاروبا ر میں کر رہا ہوں اور اس میں جو کما رہا ہوں اس میں بھی ان کا حصہ ہے۔جبکہ میرا موقف ہے کہ والد صاحب کی وفات کے وقت سے پہلے سے کاروبار قرض پر چل رہا تھا اور ان کی وفات کے بعد عرصہ ۳ سے ۴ سال کے قلیل مدت میں صبح و شام کی محنت سے اور اللہ سبحان وتعالی کی مدد سے تمام قرض ادا کیے ہیں ۔ قرض پر مال لیا اور پچھلا کاروباری قرض بھی اتارتا چلا گیا۔ آج قرض اتر گئے ہیں تو مطالبہ ہے کہ جو محنت کر رہے ہو اس میں ہمارا بھی حصہ ہے۔ لہذا آپ سے درخواست ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں میری راہنمائی فرمائیں کہ کیا میر ی محنت اور کمائی میں ان کا بھی حصہ ہے؟
العارض:عمر قریشی، ساکن: راولپنڈی

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

میت کی منقولہ وغیر منقولہ ہر قسم کی جائیداد اور کاروبار اس کی وراثت اور ترکہ میں شمار ہوتے ہیں۔ لہذا جس طرح اوپر بیان کردہ جائیداد میں تمام بہن بھائی بطور ورثا شریک ہیں، اسی طرح کاروبار میں بھی سب کا حصہ موجود ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:

}لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ ٱلْوَٰلِدَانِ وَٱلْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ ٱلْوَٰلِدَانِ وَٱلْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا{[سورةالنساء:7]

’ آدمی کے لئے حصہ ہے اس جائیداد میں سے جو اس کے والدین اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں۔اسی طرح عورتوں کے لیے بھی حصہ ہے۔اس ترکہ سے جو والدین چھوڑ جائیں یا قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں۔ زیادہ ہو یا کم ہو یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصہ ہے‘۔
اگر چہ 2006 میں کاروبار کی ذمہ داری برخوردار (سائل) نے سنبھال لی تھی، لیکن سر پرستی پھر بھی والد صاحب کی ہی تھی، لہذا یہ کاروبار کسی ایک بیٹے کا شمار ہونے کی بجائے والد کی ملکیت سمجھا جائےگا۔
بیٹے نے محنت کرکے کاروبار کو سنبھالا دیا، قرض وغیرہ اتارا، تو یہ سارا کچھ اسی کاروبار کی بنیاد پر ہی ہے، جو والد کی طرف سے انہیں ملا، اگرچہ وہ کسی حالت میں بھی تھا۔ جب والدین نے بچوں کو پال پوس کر بڑا کیا، تو ان کا قرض اتارنا بھی انہیں کے ذمے ہے، یہ کسی پر احسان نہیں ہے۔
والد کی وفات کے فورا بعد جو کچھ بھی تھا، جیسا بھی تھا، اگر اسے بطور وراثت شرعی حصص کے مطابق تقسیم کردیا جاتا، اور ہر کوئی کاروبار سے اپنا حصہ الگ کرلیتا، تو پھر یہ سائل حق بجانب تھا کہ اس کی محنت میں کوئی شریک کیوں ہو؟ لیکن جب تک مشترکہ کھاتے کے طور پر کاروبار رہےگا، تو سب ہی اس میں شریک رہیں گے۔
باپ سے ملنے والے کاروبار پر محنت کرنے والا بیٹا، اپنا حق الخدمت اور خرچہ وغیرہ لے سکتا ہے، جو کہ یقینا وہ لیتا بھی رہا ہوگا، کیونکہ اتنے سال سے اگر وہ اس کاروبار میں مصروف ہے، تو یقینا وہ اپنے اخراجات اور ضروریات بھی اسی سے پوری کرتا ہوگا، جو کہ اس کا حق تھا۔
بہنوں کا یہ مطالبہ تونہیں ہے، کہ جو تم خود پہ خرچ کر تے رہے ہو وہ بھی ہمیں دیں ،وہ تو کاروبار میں آنے والی پرافٹ کے بارے میں کہہ رہی ہیں۔اگرپرافٹ نہیں ہے پھر اللہ کے سپرد ہے۔اور اگر نفع اور بچت ہورہی ہے، تو پھر عدل و انصاف کا تقاضہ یہی ہے کہ معروف طریقے سے اخراجات اور حقِ خدمت نکال کر بقیہ ماندہ یعنی بچت سے دیگر بہنوں بھائیوں کو حصہ دیا جائے۔
یاد رکھیں !یہ دنیا کا مال و متاع دنیا میں ہی رہ جائےگا، لہذا حد درجہ احتیاط کریں، ایک دوسرے کے حقوق کھلے دل سے ادا کرنے چاہییں، تاکہ کل قیامت والے دن باز پرس سے محفوظ رہا جاسکے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

” إنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم ألحن بحجته من بعض، فمن قضيت له بحق أخيه شيئا بقوله، فإنما أقطع له قطعة من النار، فلا ياخذها”. [بخاري:2680، مسلم:4473]

”تم لوگ میرے پاس ،اپنے مقدمات لاتے ہو ،اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص، دوسرے سے بات کرنے میں بڑھ کر ہوتا ہے،لہذا اگر ظاہر کا خیال رکھتے ہوئے، میں کسی ایک کے مال کا دوسرے کے حق میں فیصلہ کردوں ، تو اسے نہیں لینا چاہیے، كيونكہ ایسی صورت میں، میں اس کے لیے دوزخ کے ایك ٹکڑے کا فیصلہ کر رہا ہو تا ہوں۔“

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ