سوال

ہوٹل میں نکاح ہوا،جس میں لڑکی کا وکیل نہیں تھا۔گواہ ہوٹل کے دو ویٹر تھے۔ لڑکے نے خود اپنا نکاح پڑھا، اور حق مہر بھی مقرر ہوا۔کیا یہ نکاح جائز ہے یا نہیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

نکاح کے صحیح ہونے کے لئے دو شرطیں ہیں:
1:ولی کی اجازت۔ 2:لڑکی کی رضامندی۔
یہ دو چیزیں تو بنیادی شرطیں ہیں۔ اسی طرح لڑکی کے ولی کی طرف سےایجاب ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے وہ کسی پر ذمہ داری ڈال رہا ہے، اور دولہا کی طرف سے قبول ہوتا ہے ،جس کا مطلب ہے کہ جو اس پہ ذمہ داری ڈالی جارہی ہے، وہ اس کو قبول کر رہا ہے۔ اس کو ہم اپنی زبان :ایجاب و قبول کہتے ہیں۔ نکاح کے صحیح ہونے کے لئے اس ایجاب و قبول کا ہونا بھی ضروری ہے۔
صورت مسؤلہ میں جو حالت بتائی گئی ہے کہ ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر وہیں سے دو ویٹروں کو گواہ بنا لیا گیا، جبکہ بنیادی شرط ولی بھی موجود نہیں تھا اور نکاح لڑکے نے خود پڑھایا ۔ایسی صورت میں نکاح ہوا ہی نہیں ہےکیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

’لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ‘.[ سنن ابوداود: 2085]

’ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا‘۔اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

“أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ”.[سنن ابوداود:2083]

’ جوعورت بھی اپنے ولی کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے ۔اس کا نکاح باطل ہے ۔ اس کا نکاح باطل ہے‘۔
اس لیے یہ نکاح نہیں ہوا اگر میاں بیوی اکٹھے ہو چکے ہیں، تو ان کو فورا الگ کردیا جائے، اور استبراء رحم کے بعد ولی کی اجازت سے پھر دوبارہ نکاح پڑھا یاجائے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ