سوال

میں نے دوسری شادی کی ہوئی تھی، میرے والدین بہن بھائی سب اس سے ناخوش تھے۔اس وجہ سے انہوں نے مجھ پر زبردستی کی کہ  میں اس کو چھوڑ دوں، تو ان کی زبردستی کی وجہ سے میں نے ایک قولی طلاق اپنی بیگم کو دی اور اس کو بتا بھی دیا تھا کہ میں ان کے زبردستی کرنے کی وجہ سے کہہ رہا  ہوں ،لیکن میں تمہیں دل سے طلاق نہیں دے رہا۔

پھر فورا میں نے اس سے رجوع بھی کر لیا تھا۔پھر دوسری طلاق کے لیے زور زبردستی کرنے لگے لیکن میں نے قولی طلاق نہیں دی،  میرے چچا  وکیل ہیں انہوں نے خود ہی ایک طلاق کااسٹام لکھوایا اور اس پر میرے بھائی اور باپ نے سائن کیے،  جب میرے پاس آیا تو میں نے اپنے نام والی جگہ پر خود سائن نہیں کیے،  ایک دوست سے کہہ دیا کہ آپ اس پر سائن کر دیں کیونکہ میں طلاق نہیں دینا چاہتا تھا،  تو اس پر میرے دوست نے سائن کر دیے،  میں نے نہیں کیے۔یہ میں نے اس لیے کیا کیونکہ میری نیت چھوڑنے کی نہیں تھی۔

لیکن میرے گھر والوں نے سمجھا کہ شاید میں نے خود سائن کیے ہیں اور دوسری طلاق ہو گئی۔اور تیسری دفعہ بھی اسی طرح ہی اسٹام انہوں نے لکھوایا اور میرے بھائی نے جاکر میری بیگم کو دیا ، وہ میں نے خود جاکر بھی نہیں دیا تھا۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ میرے لیے کیا حکم ہے اس سے طلاق ہو جاتی ہے یا نہیں؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

دوسری شادی کرنا کوئی فرض نہیں بلکہ والدین کی اطاعت  وفرمانبرداری ضروری ہے۔ اگر برخوردار کو دوسری شادی کرنی ہی تھی تو پہلے اپنے والدین کو اعتماد میں لے لیتے پھر یہ قدم اٹھاتے۔تاکہ جس آزمائش سے اب یہ گزر رہے ہیں اس سے  نہ گزرنا پڑتا۔ ان سب معاملات کو شادی سے پہلے سوچنا چاہیے، کہ آخر میں اس کو برقرار بھی رکھ پاؤں گا یا نہیں!

بیان کردہ صورتِ حال سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دوسری شادی کسی معقول اور مشروع طریقے سے  نہیں  کی گئی بلکہ جس کو ہم لو میرج یا کورٹ میرج کہتے ہیں یہ اس قسم کی شادی تھی،  اس لیے تو یہ اپنے والدین سے  اور بہن بھائیوں تک سے پوشیدہ تھی،  لہذا جب والدین  اور  بھائیوں کو علم ہوا تو انہوں نے اس پر زور دیا کہ اس کو چھوڑ دو۔

شریعت میں اس کو جبر اور زبردستی نہیں کہتے،  زبردستی تو یہ ہوتی ہے کہ اس کو مار دینے کی دھمکی دی جائے یا اس کے کسی عزیز کو مار دینے کی دھمکی دی جائے یا اس کے یا اس کے کسی عزیز کے عضو کو کاٹ دینے کی دھمکی دی جائے اور وہ دھمکی دینے والا یہ کام کرنے پر قادر بھی ہوتواس کو جبراور اکراہ کہتے ہیں، اور یہاں اسطرح کا معاملہ نہیں ہے۔

اس برخوردار نے جو قولی طلاق دی ہے اس کو زبردستی کا نام نہیں دیا جا سکتا، بلکہ یہ ایک طلاق واقع ہو چکی ہے،  پھر اس کے بعد اس نے رجوع بھی کر لیا، کیونکہ والدین کو پتا تھا یہ کوئی نہ کوئی حیلہ کرے گا اس لئے انہوں نے دوسری مرتبہ اس کے نام پر ایک اسٹام نکلوایا،اس پر طلاق نامہ لکھوایا گیا اور اس کے سپرد کر دیا گیا۔ لیکن اس نے یہ حیلہ کیا کہ اپنے نام کے آگے دوست کے سائن کروائے اور گھر والوں کو یہ باور کروایا کے سائن اسکے اپنے ہیں۔

بہر حال اصالتادستخط ہوں یا وکالتادستخط ہوں، یہ اس کے اپنے ہی شمار کیے جائیں گے۔ اوریہ کوئی شرعی حیلہ نہیں ہے بلکہ اللہ کی حدود کو پامال کرنے کا ایک چور دروازہ ہے جو اس نے سوچا ہے، اس طرح کی باتوں کا اعتبار کیا جائے، تو دنیا کی کوئی تحریر قابل اعتماد نہ رہے گی، رسمی اور قانونی کاغذات میں  جب آپ کے نام اور سائن کے ساتھ طلاق لکھی ہوئی ہے، تو اس کو کس طرح ناقابلِ اعتبار کہا جائے گا؟

بہرصورت  یہ طلاق بھی واقع  ہوگئی ہے۔ یہی حال تیسری طلاق  کا ہے۔ لہذا ہمارے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، اب  یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے نہیں رہ سکتے۔

ہماری نصیحت یہ ہے کہ والدین سے کوئی چیز چھپا کر نہ رکھی جائے، تاکہ ہمیں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اور نہ ہی کسی کی بہن اور بیٹی کو آزمائش میں ڈالا جائے، اپنی بھی عزت و ناموس کو محفوظ رکھیں اور دوسروں کی بہن بیٹیوں کی عزت  کا بھی خیال کریں۔

    وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ