سوال

آپ کا فتوی ہے کہ بطور راشن زکاۃ نکالنا درست نہیں، بلکہ غریبوں کو وہ مال دینا چاہیے، وہ اس سے جو مرضی خرید لیں. اسی حوالے سے ایک سوال ہے کہ اگر کوئی شخص مسئلے کا علم نہ ہونے کی وجہ سے زکاۃ کے پیسوں سے راشن لے کر تقسیم کر دے، تو کیا اس کی زکاۃ ادا ہو جائے گی یا پھر اسے دوبارہ ادا کرنا ہو گی؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

جی یہ بات درست ہے کہ زکاۃ میں نقدی ہی ادا کی جائے، اس سے راشن تقسیم کرنا درست نہیں۔ لیکن اگر کسی کو مسئلے کا علم نہیں تھا اور اس نے زکاۃ کی ادائیگی کے طور پر راشن وغیرہ لے کر تقسیم کر دیا، تو اس کی زکاۃ ادا ہو جائے گی۔ ان شاءاللہ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

“إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ وَالنِّسْيَانَ وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ”. [سنن ابن ماجة:2045، صحيح ابن حبان:7219، المعجم الکبیر للطبراني: 11274، تخريج المشكاة للألباني:6248]

’اللہ تعالیٰ نے میری امت سے غلطی، بھول چوک، اور جس کام پر انہیں مجبور کردیا جائے، سے درگزر کیا ہے‘۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ